مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے پیچھے کون ہے؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر(Jared Kushner) ایک امریکی یہودی سرمایہ دار اور  بزنس مین ہیں۔ انہوں نے ایک ترقی پسند یہودی گھرانے( Modern Orthodox Jewish family) میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم بھی ایک یہودی مدرسہ ہی سے حاصل کی جس کا نام ’’ فِرِش اسکول‘‘( Frisch School) ہے۔ یہیں سے انہوں نے گریجیوئیشن بھی کیا۔
جارڈ کشنر اور ایوانکا ٹرمپ کی شادی سنہ 2009ع میں، یہودی مذہب کے مطابق ہوئی۔ شادی کے بعد ایوانکا نے بھی یہودیت اختیار کر لی۔ اب دونوں میاں بیوی، باعمل (Practicing) یہودی ہیں مگر یہ ’’ترقی پسند یہودیت‘‘ کے پیروکار ہیں جسے  Modern Orthodox Judaism کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے: ’’ تورات میں  میں بتائے گئے قوانین کو جدید و سکیولر دنیا کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرکے نافذ کرنا‘‘ (جیسے ہمارے یہاں بھی آج بعض تجدد پسندوں کا نظریہ ہے)۔
پچیس برس کی عمر میں جارڈکشنر نے، دس ملین امریکی ڈالرز کے عوض مقبول ہفتہ وار میگزین، ’’نیویارک آبزور‘‘ خریدا، جس کے لیے اتنی خطیر رقم بقول ان کے، انہوں نے دورانِ تعلیم اپنے تعمیراتی پروجیکٹس سے حاصل کی۔  لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ا س میگزین سے انہوں نے اپنے کاروباری حریفوں کے خلاف کامیاب پروپگینڈا کیا اور انہیں خوب زچ کیا۔
اسی میگزین کے تجربہ کو کام میں لاتے ہوئے، جارڈکشنر، اپنے سسر، صدر ٹرمپ کی آن لائن اور ڈجیٹل انتخابی مہم کے ذمہ دار بن گئے۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم   کا تمام تر خاکہ اور انتظام انہی کے سپرد تھا ۔ اکثر لوگوں کی  رائے یہ ہے کہ   صدر  کو الیکش سے قبل کی تقاریر لکھ کر دینے والے بھی یہی تھے۔
صدربننے  کے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں رواں سال جنوری میں، وائٹ ہاؤس کا  سینیئر ایڈوائزر مقرر کیا، جس کے بعد ان کو وائٹ ہاؤس کےروزمرہ امور کو چلانے کے لیے سب سے طاقتورترین فرد تصور کیا جانے لگا۔ یہ صدر کی سیکیورٹی کو بھی دیکھتے ہیں اور انہی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے، صدر نے وائٹ ہاؤس کے  پرانے عملہ کو فارغ کیا، جس کی بظاہر یہ تردید کرتے ہیں۔  ان پر، دوران انتخابی مہم، روسی  حکومت کےبعض ذمہ داران سے خفیہ ملاقاتیں کرنے کا بھی الزام ہے، جس کی پہلے تو یہ تردید کرتے رہے مگر جب روس کے اندر سے اس کی تصدیق ہوئی تو مان گئے مگر پھر ان ملاقاتوں کو محض اپنی ریئل اسٹیٹس بزنس کے حوالہ سے کی گئی ملاقاتیں قرار دے دیا۔
مشرق وسطیٰ کے معاملات میں رول:
یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہےکہ صدر ٹرمپ، اپنی حکومت، کچن کیبنٹ کی طرز پر چلا رہے ہیں اور ہر معاملہ میں ان کے مکھیہ صلاحکار، دامادِ اوّل ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے  مشرق وسطیٰ، خاص طور پر اسرائیل و فلسطین کے مابین تنازعے کے حل کے لیےاپنے داماد ہی کو مقرر کیا اور ان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ  اس تنازعہ  کے حل میں اپنا  رول ادا کریں۔ لہٰذا ، دماد صاحب نے، ڈی فیکٹو وزیرخارجہ کے طور پر، رواں  سال 24 اگست کو پہلے اسرائیل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے بنجمن  نیتن یاہو سے ملاقات کی اس کے بعد فلسطین گئے  جہاں صدر محمودعباس سے بھی ملے۔
جارڈ کشنر کے قانونی معاون، ابی لویل نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ داماد صاحب، وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر اکثر سرکاری خط و کتابت، اپنے ذاتی ای میل والے اکاؤنٹ سے کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہی الزام ڈونلڈٹرمپ، ہیلری کلنٹن پر لگاتے رہے ہیں۔
  مئی 2017ع میں، ان دونوں، (سسر اور داماد) نے اسرائیل کا دؤرہ بھی کیا اور یہودی ربیوں سے ملاقات کے دوران وہ خاص ٹوپی بھی سر پر رکھی جو یہودیوں کا طرہء امتیاز ہے۔(تصویر میں دیکھیں)
نیو یارک ٹائمز کے مطابق، یہ جارڈ کشنر ہی ہیں جنہوں نے سعودی عرب کو ایک سو بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی ڈیل کو فائنل کیا۔
ترک اخبار، ڈیلی صباح کے کالم نگار، یحیٰ بوستان نے مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ واقعات پر کچھ اس طرح کڑیاں جوڑی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان اتفاقی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پہلے میدان سازگار بنایا گیا ہے:
’’اوّل:  صدر ٹرمپ نے پہلا کام تو یہ کیا کہ خطہ کے دوبڑے ملکوں، سعودی عرب  اور مصر کو ایک جگہ بٹھا کر ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ رہا تمہارا اور ہمارا  مشترکہ دشمن تو دوسری طرف اس کو خطیر رقم کا اسلحہ بھی بیچ دیا۔ اس کے علاوہ، ان کو قطر کے ساتھ بھی لڑا دیا جو ترکی کے ساتھ مل کر اہلِ غزہ  کی بھرپور مدد کرتا آیا تھا اور تہران کے ساتھ بھی اپنے روابط برقرار رکھتا آ رہا تھا۔ کالم نگار کے بقول، قطر کے حوالہ سے امریکی پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی اور قطر کے پاؤں میں زنجیر ڈالنے کا کام دراصل صدرٹرمپ کے داماد صاحب کا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہوئی وہ یہ کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان میں، درونِ خانہ  جو رسہ کشی کا ماحول بنا، اس نے ولی عھد ، محمد بن سلمان کو موقعہ فراہم کردیا کہ  وہ  آگے بڑھ کر،مملکت کے جملہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
دوئم:یہ جارڈ کشنر ہی تھے جنوں نے  پہلے سے تباہ حال عراق کو مزید تباہ و برباد کرنے کے لیے کرد رہنما مسعود برزانی کو  کرد ریاست کے قیام کے لیے  رینفرنڈم کا راستہ دکھایا۔ کشنر، مسلسل مسعود برزانی کے بیٹے مسررور برزانی کے ساتھ رابطے میں رہے تاکہ ان سے  ان کے والد کو ریفرنڈم پر آمادہ کرنے کا کام لیں ۔ یہ ریفرنڈم، پہلے سے  غیرمستحکم خطہ کو مزید کمزور کرنے کی ایک سازش تھی جس کا نتیجہ لازمی طور پر خون ریزی و انتشار  تھا، مگر شکر ہے کہ عراقی افواج نے کرکوک میں داخل ہو  کر اس  آگ کو مزید پھیلنے سے بچا لیا۔
سوئم: جارڈ کشنر، (دامادِ ٹرمپ) نے ایک بار پھر اپنا چہرہ دکھایا۔ جب  انہوں نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں  کو ایران فوبیا میں مبتلا کر کے، لبنان کی حزب اللہ کو کنٹرول  کرنے کے پلان کے تحت، سعودی عرب اور حزب اللہ کو آمنے سامنے لانے کی کوشش کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو حزب اللہ  سے کیا تکلیف؟ جواب یہ کہ یہ وہی حزب اللہ ہے جس نے کسی حد تک  اسرائیل کو نکیل ڈالی ہوئی ہے اور کئی بار اسرائیلی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور  کیا ہے۔ سعودی عرب نے حریری کو یرغمال بنایا تھا یا حریری نے خود ہی وہاں پناہ لی تھی، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مگر حقیقت میں دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ  حزب اللہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے جولبنان اور خطہ کے لیے ایک مستقل خطرہ  ہے۔
کالم نگار نےایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا ہے  کہ شام اور عراق سے پسپائی کے بعد داعش کے جنگجو اب  اپنے بھاری اسلحہ کے ساتھ کہیں ’’غائب‘‘  ہوگئے ہیں ۔ مگر بقول کالم نگار، انہیں  ڈر ہے کہ داعشی مسلحہ گروہوں نے فلسطین کی مدد کے نام پر اگر وہاں کا رخ کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دہشتگردی کا الزام لگا کر،  اسرائیل کو حماس کے خلاف کارروائی کرنے اور یروشلم پر قبضہ جمانے کا  جواز ہاتھ آ جائے گا، اور یہ ہی شاید امریکہ اور دامادِ اول کا پلان معلوم ہوتا ہے۔‘‘
نہ جانے کیوں، جارڈکشنر کے بارے میں تفصیلات پڑھتے ہوئے، مجھے بار بار سابق امریکی وزیرخارجہ، ہینری کسنجر یاد آ رہے تھے جو نسلاََ اور مذہباََ ،  یہودی تھے ۔ کہتے ہیں، ستر کی دہائی سے لے کر اب تک جتنے بھی صدور آئے وہ کوئی قدم اٹھانے سے قبل کسنجر کی رائے ضرور جاننے کی کوشش کرتے تھے اس لیے ہینری کسنجر اور وائٹ ہاؤس کا رشتہ کئی دہائیوں پر مشتمل  رہاہے اور آج بھی قائم ہے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ جارج بش نے عراق پر حملہ بھی انہی کے مشورے پر کیا تھا۔
یہ سب دیکھتے ہوئے، لگتا ہے کہ امریکہ کو ’’یہوی جارڈکشنر‘‘ کے روپ میں ایک اور’’ یہودی ہینری کسنجر‘‘ مل گیا ہے کیوں کہ پرانا والا ’’کسنجر‘‘ اب بہت بوڑھا ہو چکا ہے۔
حصہ

جواب چھوڑ دیں