ٹرمپائزیشن کا سحر

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے قریب تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ جس کی حفاظت ، خدمت اور اس کا تحفظ تما م مسلمانوں کا اولین فرض ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جس کو جلیل القدر انبیاء ؑ و اولیاء ؒ کی جبین کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یہاں وحی کا نزول ہوتا رہا، قرآنی شہادت کے مطابق یہاں رحمتیں برستی ہیں۔ اسی مقدس جگہ سے رب تعالیٰ، امام الانبیاء ﷺ کو معراج پر لے گئے تھے۔یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہاں ایک نماز کا ثواب ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے۔لیکن اب اس مقام سے ہمارا اتنا سا تعلق رہ گیا ہے کہ سال میں ایک بار واقعہ معراج کے حوالے سے اس کا ذکر کر لیتے ہیں۔ اپنی مساجد و مکاتب میں چراغاں کر کے اپنے آپ کو اس فرض سے سبکدوش ثابت کرتے ہیں۔بہت حد ہو گئی، اسرائیل نے بے حرمتی کر لی تو فقط اتنا ہوتا ہے جیسے اونگھتے ہوئے آنکھ کھل جائے اور بس۔ اس سے آگے کا خیال نہیں آتا۔ مسلم حکمران خواب خرگوش کے مزے لیتے اٹھ بھی گئے تو سونے چاندی کے لات و منات کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فقط اتنا ہی کہتے ہیں کہ’’ اپنے پالے اس جانور کو لگام دو ،وگرنہ مسلم عوام احتجاج کر کر کے ہماری نیندیں خراب کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی ناپاک ریاست بیت المقدس پر قبضہ کیے بیٹھی ہے اور ہم نے اس مسئلہ سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ یا پھر اس مسئلہ کو صرف فلسطینی عوام کا مسئلہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جب کہ یہ ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب گورے سامراج کے بازو شل ہو گئے تو اس نے نومبر ۱۹۴۷ میں فلسطین جیسی مقدس سرزمین کو دولخت کر کے مسلمانوں و یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا’’ ہم اپنے قدرتی اور ریاستی حق کی بنیاد پر یہاں اپنی ریاست کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘ ۱۴ مئی ۱۹۸۴کو دنیا کے نقشے پر ناجائز وجود پانے والی بدمعاش ریاست اسرائیل نے ۷ جون ۱۹۶۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا۔جب کہ اقوام متحدہ ۱۹۴۷ میں القدس کو خود مختار شہر قرار دے چکی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیلی اپنی ازلی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ آج تک دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کی آمد ہے۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے نئے محلے و بستیوں کی تعمیر کی گئی ہے۔ شہر کی کشادگی و خوبصورتی کے بہانے اسلامی آثار و مقامات کو مسمار کیا گیا ۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ بیت المقدس میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے تقدس کو پامال کیا ۔ وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ہزاروں فلسطینی شہید کیے گئے۔ اس سارے عمل میں طاغوتی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہی۔
۱۹۸۰ء میں اسرائیل نے ’’یروشلم ایکٹ‘‘ کے نام سے ایک قانون مرتب کیا جس کے تحت بیت المقدس کو بلا شرکت غیرے اپنا دارلحکومت مقرر کیا ۔ اسرائیل نے عالمی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنے وفاقی ادارے تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیے۔ لیکن دیگر ممالک نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم نہیں کیا تھا اسی وجہ سے کسی بھی ملک کا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہیں ہوا تھا بلکہ تل ابیب میں ہی تھا۔ ۱۹۹۳ء میں پہلی بار فلسطین وا اسرائیل کے درمیان براہ راست معاہدہ ہوا۔اوسلو معاہدے میں ۷۸ فیصد حصے پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔ اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ سے بتدریج انخلا کرنا تھا ۔ مگر ہوا کیا؟ ۳ لاکھ سے زائد یہودی آباد کاروں کو مقبوضہ علاقوں میں بسایا گیا، ۰۰۰،۱۵ سے زائد فلسطینی عمارتوں کو منہدم کیا گیا۔ ۴۴۱ میل لمبی دیو ہیکل ناجائز دیوار تعمیر کر کے اہل فلسطین کو محصور کر دیا گیا۔
دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل نے پورے فلسطین پر ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے۔ مگرچوں کہ عالمی طاقتوں کی آشیر باد حاصل ہے اسی بناء گزشتہ دنوں امریکا نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے امریکی کانگریس نے ۱۹۹۵ میں بھی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی منظوری دی تھی مگر اس وقت کے صدر نے قومی سلامتی کے پیش نظر اس منصوبے کو مؤخر کر دیا تھا۔ گزشتہ ۲۳ برس سے امریکی صدور اس قضیے کو ٹالتے آ رہے ہیں ۔لیکن اب پھر امریکا نے بزعم خود سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم امہ ، یورپی یونین، برطانیہ، جرمنی اور روس نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے کیوں کہ یہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا:’’ اس طرح وہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘ سوچنے کامقام ہے کہ مسلمانوں کی کمر میں چھرا گھونپ کر امریکا فریقین کو راضی کر کے امن قائم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ دنیا میں بد امنی پھیلانے والے امریکا کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔ امریکی حکمرانوں کا مسلم کش رویہ، مسلمانوں کے خلاف اقدامات و اعلانات سے ہی مسلم دشمنی ظاہر ہو جاتی ہے۔اس کی دوغلی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن؟ امریکا اسرائیل کی کھلی سرپرستی کو عملی طور پر تسلیم کر کے اس کی پالیسیوں کی حمایت کر چکاہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم حکمران جو ہر آن ہر گھڑی اس پر وارے جاتے تھے، دوست و دشمن کی پہچان کیسے کرتے ہیں؟ وہ ایک ظالم و انتہا پسند ریاست کے روپ میں سامنے آنے والی حکومت کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات رکھتے ہیں؟ کیا ایک شاندار ماضی و عظیم تاریخ رکھنے کی حامل امت ظلم کا ساتھ دے گی یامظلوم کی اعانت کرتے ہوئے مسئلے کا حل تلاش کرے گی؟کیا وہ مذمتی قراردادیں ہی پیش کرکے احتجاج ہی کرے گی یا عملی اقدامات کی طرف بھی قدم اٹھائے گی؟ مذمت و احتجاج اور رسمی قراردادوں کا سلسلہ تو ایک صدی سے جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں۔ پوری امت مسلمہ کی نظریں مسلم حکمرانوں اور عرب حکومتوں پر ہیں۔ عرب حکومتیں تیل کو اسلحہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ تیل سے مالا مال عرب ریاستیں امریکی و یہود ی بینکوں سے اپنا سرمایہ نکال لیں تو ٹرمپو اپنے مذموم عزائم سے باز آسکتا ہے ۔ اللہ کرے وہ ’’ٹرمپائزیشن ‘‘ کے سحر سے نکل آئیں اور اس طرف عملی پیش رفت کر سکیں۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں