پھر شکایت مت کیجئے گا

اکثر والدین کو اپنے بچوں سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ پڑھتے نہیں۔ اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے۔ اپنا وقت ٹی وی، کمپیوٹر یا موبائل کے گیم اور کارٹون دیکھ کر گزار دیتے ہیں اور اپنی آنکھیں خراب کرتے ہیں۔ ان کی زبان بھی روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ اخلاقیات تو گویا ان کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ نہ ادب سے واقف ہیں اور نہ ہی آداب سے۔ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔
شکایات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا یہاں احاطہ بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کرنا مقصود ہے۔ بچے ہم سب کی ذمہ داری ہیں کیونکہ یہی پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔ یہ وہ کورا کاغذ ہیں جن پر ہم نے اپنا مستقبل کا نقشہ تعمیر کرنا ہے۔ بچے ہمارا عکس بھی ہیں کہ یہ ہمیں دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں سے یہ کہہ کر عہدہ برآں نہیں ہوسکتے کہ دوسروں نے اپنا حق ادا نہیں کیا۔
والدین اس معاملے میں اکثر اساتذہ کو قصوروار سمجھتے ہیں کہ ہم بچوں کو بہترین اسکولز میں اس لیے داخل کراتے ہیں کہ بچے کچھ تعلیم و تربیت سیکھیں لیکن اساتذہ بھاری فیس تو لیتے ہیں مگر تعلیم نہیں دیتے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ بچہ ہمارے پاس صرف 5 تا 6 گھنٹے ہوتا ہے باقی وقت وہ گھر میں گزارتا ہے۔ لہٰذا ان کی ذمہ داری اتنی نہیں بنتی۔ میرا مقصد یہاں ذمہ داریوں کا تعین کرنا بھی نہیں کہ کس کی کتنی ذمہ داری بنتی ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ اس سارے معاملے میں بچے اس حد تک متاثر ہوئے ہیں کہ بقول اکبر الہ آبادی یہ کہنا پڑتا ہے
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
جنہیں پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ہماری نصاب کی کتب کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کتابوں کا ایک ڈھیر ہے جو ایک گدھے پر لاد دیا گیا ہے کہ جسے اٹھا کر گدھا عالم نہیں بنتا۔ ہمارے ایک استاد ہمیں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ تم اپنے ذہن میں پوری دنیا کا علم نہیں سمو سکتے، تم پوری ڈکشنری حفظ نہیں کرسکتے لیکن تم اپنے اندر پڑھتے رہنے کی صلاحیت پیدا کرو۔ اس سے تم دورِ حاضر سے آگاہ بھی رہو گے اور تم تاریخ سے بھی واقف ہوجاؤ گے۔ تمہیں پڑھتے رہنا ہوگا اور سیکھتے رہنا ہوگا کیونکہ جو ایسا نہیں کرے گا وہ علم کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔
سکول کے نصاب کا مقصد بچوں کو علم کی بنیادیں فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن ہم نے چاہا کہ دنیا بھر کا علم بچے کو نصاب کی صورت گھول کر پلا دیں جس سے ہوا یہ کہ جو گلاس میں پانی تھا وہ بھی چھلک گیا اور پڑھنے سے نفرت اور بیزاری نے جنم لیا۔ اگر ہم تعلیمی نصاب میں کتابوں کو کم کریں اور بچوں میں غیر نصابی کتب کے مطالعہ کی عادت پیدا کریں تو شاید ہم اس کا کسی حد تک ازالہ کرسکتے ہیں جو ہم نے کتاب سے دوری پیدا کرکے حاصل کیا ہے۔
بچوں میں ادب کو پروان چڑھانے کے لیے اسکولز میں نہ صرف لائبریریز کا قیام عمل میں لانا ہوگا بلکہ ان کو اس طرف راغب بھی کرنا ہوگا کہ وہ خود انہیں اپنی مرضی سے پڑھیں۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی بچوں کے رسائل اور کتابیں نہ صرف لا کر دیں بلکہ انہیں پڑھ کر سنائیں اور خود بھی سنیں۔ سوتے وقت ایک کہانی روزانہ پڑھ کر سنائیں۔ ہم بچوں کے مستقبل کے لیے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں لیکن اس کے لیے کچھ کرتے کیوں نہیں؟ آپ کا وقت، بچوں کے رسائل اور کتب ہی بچوں میں ادب کو فروغ دے سکتے ہیں۔
بچوں کے بے شمار میگزین مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو بچوں میں ادب کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن میں یہاں بچوں کے رسالے ماہنامہ’’ ساتھی ‘‘ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے اس سال مسلسل اشاعت کے چالیس سال مکمل کیے ہیں جو ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں میں ابھی بھی ادب پڑھا جا رہا ہے اور اس کے فروغ کی بامقصد کوششیں کی جارہی ہیں۔لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اتنے اچھے میگزین مارکیٹ میں موجود ہونے کے باوجود نجانے ہم کیوں اب بھی ادب سے محروم ہیں! ادب کو چھوڑ کر آج ہم بے ادب ہوگئے۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ہر ماہ ایک میگزین بھی خرید کر نہیں دے سکتے؟ معاملہ بچوں کے ادب کا ہے، پھر شکایت مت کیجیے گا۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں