شریک حیات کو خوشیوں میں شریک رکھیں

’’اللہ بخشے !اچھا ہی ہوا ،مر گئی بیچاری‘‘ صبح و شام اس کو مارتا اس پر ظلم کرتا تھا۔کب تک سہتی؟ ابھی چند دن پہلے تمہاری بہن اس کے گھر سے واپس آئی تو بہت اداس تھی۔ وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ’’آ ج پھر شوہر نے مارا ہے۔ اس کی آنکھ کے گرد گہرا نیلا حلقہ بنا تھا، چہرے پر انگلیوں کے نشان تھے۔ وہ بالکل مرجھائی ہوئی تھی۔کتنی حسرتوں سے اس کی بیوہ ماں نے بیاہ کے دیا تھا، کہ اس کا شوہر اپنا لڑکا ہے ، خیال رکھے گا۔مرحومہ لڑکے والوں کی مانگ کے مطابق جہیز لائی تھی۔ا بھی تو معصوم سی بچی بھی تھی اس کی گود میں، مگر اس کا شوہر احساس سے عاری تھا۔ ساری فرمائیشیں لڑکے والوں کی پوری کی تھیں، سوائے بچی کو جنم دینے کے، اس نے بچی کو جنم دے کر اپنے لیے قیامت کھڑی کر دی تھی۔
کریدنے پر پتا چلاکہ شوہر اپنی ماں کی شراکت کے ساتھ تب ہی تو مارتا پیٹتا ہے کہ لڑکی کیوں جنی؟ لڑکا کیوں نہیں جنا؟انہیں لڑکا چاہیے تھا۔وہ سب اس بات سے بے پرواہ ہیں کہ بروز قیامت رب تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہی ہو گی، جہاں کوئی سفارش، کوئی رعب دبدبہ کام نہیں آئے گا۔ جہاں انصاف کے ساتھ فیصلے ہوں گے۔ اس بیچاری کی طبیعت بھی خراب تھی، ٹھیک سے علاج نہیں کرایا، الٹا مار پیٹ کر زخموں کو مزید ہرا کیا۔ یقین کرو میں اس کی وفات پر اتنا دکھی نہیں جتنا سکھی ہوں۔ اچھا ہوا خدا نے سنبھال لی۔ اب کم از کم جیتے جی مریں گے تو نہیں ، تمہاری بہن ان کے گھر سے واپسی پر روئے گی تو نہیں، ہم جلیں گے تو نہیں۔ وہ میری ایک طرح سے بھتیجی لگتی تھی مگر افسوس…! ساتھ ہی وہ پھوٹ کر رو پڑے۔
کچھ دن قبل ہم ایک جنازہ میں شریک تھے۔ ادائیگی کے بعد میت کو کندھا دینے، بخشش کی امید،آخرت کے سفر کی تیاری کی نیت اور گناہوں پر نادم موت کو یاد کرتے ہوئے میت کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ دماغ کی تختی پر کسی دانا کو قول نقش تھا کہ’’ جب کوئی میت دیکھو تو یہ نہ سوچو کہ اس کی میت ہے۔ بلکہ یہ سوچو کہ تمہاری اپنی میت ہے ‘‘۔ قبرستاں پہنچ کر میت کے محرم اعزاء واقارب جسد کو قبر میں اتارنے لگے جب کہ باقی کے لوگ قبر سے دور اس کی طرف پشت کیے بیٹھے تو کچھ کھڑے تھے۔جگہ جگہ مختلف لوگوں کی ٹولیاں باتوں میں مشغول تھیں۔ کہیں غیبت کی محفل جمی تھی تو کہیں سیاست کی فضا بنی تھی۔ کہیں ملکی سیاست پر گرما گرم بحث جاری تھی تو کہیں حکومتی اداروں اور شخصیات کا ذکر خیر کیا جارہا تھا۔کہیں تازہ تبصرے تو کہیں تجزیے کیے جارہے تھے۔ ہر کوئی خود کو دودھ کا دھلا ثابت کر کے دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہاتھا۔ کچھ نوجوان سر موبائل میں دیے انگلی کو اس کی سکرین پر نیچے سے اوپر کو چلائے جارہے تھے تو کوئی کان سے لگائے باتوں میں مگن تھے۔اس بات سے بے پرواہ کہ یہ شہر خموشاں کیا سبق دے رہا ہے؟
میں بھی ایک ٹولی کے قریب بیٹھا تنکا ہاتھ میں لیے زمیں پر نقشے بنا رہا تھا کہ ایک بزرگ کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔وہ غالبا مرحومہ کے چچا تھے۔ جو اس کے متعلق معلومات اگل رہے تھے۔ٹولی میں بیٹھے ایک صاحب نے ان کی بات سنی تو کہا: عجیب انسان ہے ، بچی کی پیدائش میں اس کی ماں کا کیا قصور؟ یہ تو رب کے کام ہیں، چاہے تو لڑکا دے چاہے تو لڑکی دے، یا چاہے بے اولاد رکھے۔ اور لڑکی تو رحمت ہے۔حضورﷺ نے تو فرمایا: جو شخص بھی لڑکیوں کے ذریعے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے آزمائش میں کامیاب ہوا تو یہ لڑکیاں اس کے لیے بروز قیامت، جہنم کی آگ سے ڈھا ل بن جائیں گی۔(طبرانی)مگر ہم لوگ تو بچی کی پیدائش کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ بچی کی پیدائش پر فرشتے اس گھر آتے ، اور کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ پھر اپنے پروں کے سائے میں لے کر ، اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں: یہ کمزور جان ہے اورکمزور جان سے پیدا ہوئی، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا۔ قیامت تک خدا تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ شامل حال رہے گی۔ (طبرانی)
اس ٹولی میں بیٹھے دوسرے شخص نے مرحومہ کے متعلق سن کر یوں تبصرہ کیا:’’ اللہ ہی ہدایت دے ۔ ہم تو عورت کو بس اپنا غلام سمجھ لیتے ہیں ، جو چاہا کیا، مارا پیٹا۔ بہت غلط کرتا تھا وہ‘‘۔ عورت کون سی سیدھی ہوتی ہے ؟ وہ تو ہے ہی ٹیڑھی پسلی کی پیدا کردہ۔ تیسرے شخص نے الاپا۔ میں نے سنا تو جل بھن کے رہ گیا۔ کیوں کہ علماء نے لکھا ہے کہ: ’’تیڑھا پن عورت کے لیے کوئی عیب نہیں بلکہ وہ ٹیڑھا پن تو اس کی خوبی ہے‘‘۔اس کاحسن ہی ٹیڑھا ہونا ہے۔ اور ٹیڑھے پن کے اندر ہی کام آرہی ہے۔سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے تو ٹوٹ جائے گی۔ مقصود اس سے یہ سمجھانا ہے کہ اگر مرد یہ چاہے کہ عورت سو فیصد اس کے مزاج پر آجائے، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ دونوں کے مزاج مختلف ہیں۔ اب مرد زور آزمائی کرے کہ نہ جی یہ میرے مزاج پر پوری اترے ہی اترے، تو ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ عورت ٹوٹ جائے گی۔
ان صاحب کی باتیں سن کر میں دکھی ہو گیاتھا کہ جس کے بارے میں خود خدا تعالیٰ سفارش کر رہے ہیں۔ ’’ و عاشروھن بالمعروف‘‘ اچھے طریقے سے رکھو ۔ پھر بھی ہم خیال نہیں رکھتے بلکہ اسے زر خرید غلام سمجھتے ہیں۔ جو دل نے چاہا وہ کیا، جہاں کہیں کا غصہ ہوا وہ جا کر زوجہ پر اتار دیا ۔ حالاں کہ ہمارے پاس تو کامل دین موجود ہے۔ حضور ﷺ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے ازواج مطہرات کا،فرمایا:’’دنیا متاع ہے اور اس کی پونجی نیک عورت ہے، یعنی عورت زندگی کا حسین سرمایہ ہے۔ ‘‘مزید فرمایا: میری فطرت میں بیوی کی محبت رکھ دی گئی ہے۔ چناں چہ وصیت فرمائی کہ تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے:’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے‘‘
آپ ﷺ نے بحیثیت شوہر اپنی مثال فرمائی کہ’’ میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔‘‘ اب مرد کی اچھائی کا اندازہ اس کی گھر کی زندگی سے لگائیں گے ۔ اگر وہ اپنی بیوی بچوں کے لیے پیار و محبت کا ماحول بنائے رکھتا ہے تو اچھا انسان اور اگر مصیبت بنائے رکھتا ہے تو برا انسان۔ میاں بیوی کو چاہیے کہ جتنا پیار و محبت کی زندگی گزار سکتے ہیں اتناہی اچھا ہے۔ نبی پاک ﷺ ازواج مطہراتؓ سے بہت زیادہ محبت کا برتاؤ فرماتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی ازواج مطہرات پر طبعی غصہ و رعب نہیں ڈالا۔آپ ﷺؓ بحیثیت شوہر ایسا برتاؤ فرماتے تھے کہ جس میں ماتحتی اور دوستی دونوں پہلو ملحوظ رہتے تھے۔حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ کون سی عورت سب سے اچھی ہے؟ فرمایا:جو ایسی ہو کہ جب شوہر اس کو دیکھے (دل) خوش ہوجائے اور جب حکم دے تو اس کا حکم بجا لائے اور اپنی ذات اور مال کے بارے میں کوئی ناگوار بات کر کے اس کے خلاف نہ کرے۔(نسائی) خوشی اور فرمانبرداری و موافقت کے بہت سے فائدے ہیں۔
حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہماری بیوی کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا:یہ ہے کہ جیسا تم کھاؤ اس کو بھی کھلاؤ، جیسا کپڑا تم پہنو اس کو بھی پہناؤاور اس کے منہ پر مت مارو( یعنی قصور پر بھی مت مارو اور بے قصور مارنا تو ہر جگہ برا ہے) اور نہ اس کو برا سنا دو اور نہ ہی اس سے ملنا جلنا چھوڑو مگر گھر کے اندر رہ کر(یعنی روٹھ کرگھر سے باہر مت جاؤ) ۔ (ابوداؤد)

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں