افریقہ کے گھنے جنگلات میں شیروں کے شکار کی انوکھی کہانی

میں سید سہیل اختر ہاشمی مشہور شخصیات سے انٹرویو لینے کے سلسلے میں مشہور ہوں ۔لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے مجھے کس قدر محنت اور جدوجہد کرنی پڑی اس سے میں ہی واقف ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس طرح ایک اچھی اننگ کسی غیر معروف کھلاڑی کو مشہورو معروف کھلاڑی کی صف میں لا کر کھڑی کر دیتی ہے بالکل اسی طرح میرے ایک انٹرویو نے مجھے شہرت کی عظیم بلندیوں تک پہنچا دیا ۔آپ شاید یقین نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ انٹرویو کسی عظیم اور مشہور شخصیت کا نہیں بلکہ ایک شیر کا تھا جی ہاں جنگلستان کے عظیم حکمران شاہ شیر بہادر کا انٹرویو ۔ یہ انٹرویو میں نے کس طرح لیا اور وہ انٹرویو کیا تھا آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں ۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں آج کی طرح مشہور نہیں تھا اور اس میدان میں آگے بڑھنے کے لیے سخت محنت کر رہا تھا ۔ایک دن صبح صبح میرے ایک دوست ملک وقار نے فون پر مجھے صرف یہ اطلاع دی کہ وہ شکار کے سلسلے میں افریقہ جا رہا ہے اور مجھے بھی اس کے ساتھ جانا ہے میں اپنے عزیز دوست کی بات کبھی نہیں ٹالتا ۔بحرحال میں جلدی جلدی تیاری کر کے ملک وقار کے ساتھ افریقہ روانہ ہو گیا وہیں میری ملاقات وقار کے دوست جم براؤن سے ہوئی جس نے ہمارے شکار پہ جانے کے تمام انتظام پہلے ہی سے مکمل کر لیے تھے وہاں پہنچ کر ہم نے دو مقامی آدمیوں کو بھی ملازم رکھ لیا تھا۔
دو دن قیام کے بعد ہم نے افریقہ کے اُن جنگلات کی طرف سفر شروع کر دیا جہاں قدم قدم پر موت سے واسطہ پڑتا ہے اور جو اپنی پُر اسرار کہانیوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ابھی ایسے کچھ خطے موجود ہیں جہاں انسان کے قدم آج تک نہیں پہنچے ہماری اس کہانی کا تعلق بھی افریقہ کے گھنے جنگلات کے ایک ایسے ہی خطے سے ہے۔
جنگل میں داخل ہونے کے بعد ہمیں اس بات کا قطعی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ دن کب ختم ہو رہا ہے اور رات کب شروع ہو رہی ہے۔یہ ہمارے سفر کی چوتھی رات تھی ۔ہم لوگ راستہ بھول چکے تھے ۔ہمیں اپنے پروگرام کے مطابق دوسری رات اپنے کیمپ میں پہنچ جانا چاہیے تھا مگر اب چوتھی رات شروع ہو رہی تھی اور ہمیں اپنے کیمپ کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ہمارا گائیڈ بھی راستہ معلوم کرنے میں ناکام رہا تھا۔
ملک وقار نے کہا آج رات یہیں قیام کرتے ہیں صبح پھر واپسی کے لیے راستہ تلاش کریں گے ہم سب نے جلدی جلدی خیمہ لگانے شروع کر دیے اور کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ گہری نیند میں ڈوب گئے۔
ابھی میں اٹھا ہی تھا کہ ملک وقار میرے خیمہ میں داخل ہوا اور مجھ سے بولا تم نے میری رائفل تو نہیں لی۔،،
نہیں ،،میں نے جواب دیتے ہوئے اپنی رائفل کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میری رائفل بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ابھی ہم دونوں حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ ہی رہے تھے کہ باہر سے ہمیں اپنے ملازمین کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں ہم دونوں بھاگتے ہوئے باہر نکلے تو دیکھا کہ ہمارے خیموں کو چاروں طرف سے جانوروں نے گھیر رکھا ہے پھر اُن میں سے ایک ہاتھی آگے بڑھا اور انسانی آواز میں ہم لوگوں سے مخاطب ہوا۔چلو تم لوگوں کو ہمارے بادشاہ نے یاد کیا ہے ۔،،
ابھی میں کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ اس نے مجھے ٹوک دیاجو کچھ پوچھنا ہو وہیں چل کر پوچھنا۔،، پھر وہ جانور ہم لوگوں کو لے کر ایک طرف چل دیئے۔گھنے درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ لگانا دشوار ہو رہا تھا کہ ہم کس سمت سفر کر رہے ہیں ۔ کافی دیر چلنے کے بعد ہم ایک بہت بڑے اور کھلے میدان میں پہنچ گئے جس میں چاروں طرف قسم قسم کے جانوروں کا بہت بڑا مجمع لگا ہوا تھا ایک طرف ایک اونچے سے چبوترے پر ایک بہت بڑا ببر شیر بیٹھا تھا ہمیں ایک طرف کھڑا کر کے ہاتھی ،شیر کے سامنے کھڑا ہو گیااور پھر بہت ادب سے اس سے مخاطب ہوا۔جناب قیدی حاضر ہیں ۔
شیر ہم لوگوں سے مخاطب ہوا انسانوں تم لوگوں کو بغیر اجازت عظیم جنگلستان کی سر زمین میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی۔تمہیں اس کی سزا ضرور دی جائے گی مگر ہم چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کو سزا دینے سے قبل اپنی ریاست دکھا دیں تاکہ تم لوگ دیکھ لو کہ آج کہ دور میں درندگی جانوروں میں نہیں بلکہ انسانوں میں پائی جاتی ہے ۔تم سب میرے پیچھے پیچھے آؤ یہ کہہ کر وہ جنگل کی طرف بڑھا اور ہم سب اس کے پیچھے پیچھے چل دیے تھے اندر داخل ہو کر ہم نے دیکھا کہ باہر سے گھنا نظر آنے والا جنگل اندر سے کافی کشادہ اور کھلاکھلا ہے سب جانور اپنے روز مرہ کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔جب ہم وہاں کے بازار سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ ایک بندر ایک انسان کے گلے میں رسی ڈالے اس سے مختلف قسم کے کرتب کروارہا ہے اور جانوروں کے بچے خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں۔انسانوں سے مختلف قسم کے وہ سب کام لیے جارہے ہیں جو ہم اپنے یہاں جانوروں سے لیتے ہیں۔ایک انسان ایک گاڑی کے آگے جُتا ہوا تھا اور پھر پیچھے گاڑی پر اتنا سامان لاد دیا گیا تھا کہ بچارا آدمی ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا تھا بہرحال ہر طرف امن و امان تھا سب چرند پرند سکھ چین کی زندگی بسر کر رہے تھے ہم سب لوگوں کے لیے یہ سب طلسم ہو شربا کی کہانیوں سے کم نہیں تھا بہرحال کافی دیر تک گھومنے پھرنے اور سیر کرنے کے بعد ہم لوگ پھر شاہ شیر بہادر کے دربار میں جمع ہو گئے اور پھر قبل اس کے کہ شاہ شیر بہادر ہم لوگوں کے لیے کوئی سزا تجویز کرتا ۔میں نے کھڑے ہو کر باادب عرض کیا بادشاہ سلامت اگر آپ کی اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں ۔،،
اجازت ہے،، شاہ شیر بہادر نے اجازت دی۔
میں نے عرض کی جناب عالی!میری آپ سے درخواست یہ ہے کہ ہمیں معاف کر دیا جائے کیونکہ ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ آپ کی سلطنت کی سر حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور دوسری بات یہ کہ میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کا ایک انٹرویو انسانوں کی دنیا میں چھپواؤں تاکہ انسانوں کو احساس ہو کہ وہ جانوروں کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں وہ مناسب نہیں ۔ آپ کی ریاست کی حالت لکھوں تاکہ انسانوں کو معلوم ہو کہ آج کی دنیا میں ایک خطہ ایسا بھی موجود ہے جہاں رہنے والے جانور انسانوں سے زیادہ مہذب اور سمجھدار ہیں ۔،،بہرحال کافی دیر کی بحث کے بعد شاہ شیر بہادر میری بات ماننے پر تیار ہو گیا ۔ اور پھر میں نے اُس کا انٹرویو لینا شروع کیا۔
میں :جناب آپ کی ریاست میں دیکھا ہے کہ جب آپ باہر نکلتے ہیں تو آپ کی حفاظت کے لیے کوئی نہیں ہوتا آخر اس کی کیا وجہ ہے۔
شاہ شیر بہادر :مجھے حیرت یہ ہے کہ یہ سوال مجھ سے ایک انسان کر رہا ہے بہرحال میں آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں ۔پہلی بات تو یہ کہ جن جانوروں نے مجھے اپنا بادشاہ مقرر کیا ہے ان سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا اور موت تو پھر ہر جاندار کو آنی ہے جب میری موت آئے گی تو کوئی اسے نہیں روک سکتا۔
میں:جناب ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ انسانوں کی دنیا میں جانوروں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ دوسرے طرف خود آپ کی ریاست میں انسانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے تو کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
شاہ شیر بہادر :نہیں جناب؟آپ نے جو کچھ دیکھا وہ سب ڈرامہ تھا وہ تو ہم نے آپ کو صرف یہ احساس دلانے کے لیے کیا تھا کہ آپ جانوروں پر کس قدر ظلم کرتے ہیں ورنہ ہم تو اپنے یہاں انسانوں سے رہائش گاہیں بنوانے اور دوسرے ضروری کاموں کے علاوہ کوئی کام نہیں لیتے وہ سب یہاں بہت خوش ہیں اور اگر ہم بھی آپ لوگوں کی طرح کرنے لگے تو ہم میں اور انسانوں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔،،
میں:گستاخی معاف آپ اور آپ کی رعایا میں سے بہت سے جانور ایسے ہیں جنہیں خونخوار اور درندہ کہا جاتا ہے کیوں؟
شاہ شیر بہادر :یہ درست نہیں ہم تو صرف وہی کھاتے ہیں جو ہماری خوراک ہے لیکن انسان تو مہذب ہے وہاں کیوں خون خرابہ ہے وہاں کیوں لوگ ایک دوسرے کی گردن کاٹتے ہیں کمال ہے جناب جو خود درندہ ہے وہ ہمیں درندہ ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔
شاہ شیر بہادر ایک زوردار تقریر کر کے خاموش ہوا تو پاس ہی ایک چھوٹے سے پودے نے بولنے کی اجازت مانگی ۔شاہ شیر بہادر نے اجازت دے دی تو پودے نے کہا عالی مرتب یہ انسان اس قدر ظالم ہے ہم پودے اُن کی دنیا میں خوشبو بکھیرتے ہیں اُن کے گھروں کی زینت بِِِِِِِِڑھاتے ہیں ۔مگر یہ ان پودوں ،پھولوں کو مسلنے اور درختوں کو کاٹنے سے بھی بعض نہیں آتے اور پھر سب نے اپنی اپنی شکایت بتائیں۔ پرندوں نے اپنے قید میں رکھنے کا شکوہ کیا تو گدھے نے ظالمانہ مار کا ۔غرض سب لوگوں نے ان مظالم کا تذکرہ کیا جو انسانوں کے ہاتھوں ان پر ڈھائے جاتے ہیں ۔
میں نے سب باتیں سنیں اور شرمندہ ہوتا رہا کیونکہ ہم تسلیم کریں یانہ کریں یہی حقیقت ہے ہمارے یہاں جانوروں کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا جس کے وہ مستحق ہیں پودوں کی دیکھ بھال اس طرح نہیں کی جاتی جس طرح ہونی چاہیئے۔
رات کافی بیت چکی تھی شاہ شیر بہادر نے دربار کے برخاست کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی صبح ہماری روانگی کا اعلان بھی کیا۔
اگلی صبح جانوروں سے نیک دعائیں ،تحائف وصول کر کے ہاتھیوں پر بیٹھ کر ہم روانہ ہوئے اور مختلف پیچیدہ راستوں سے ہوتے ہوئے ہم انسانی دنیا کے نزدیک تک پہنچ گئے یہاں سے ہا تھیوں نے ہم سے اجازت چاہی اور وہ پھر واپس اپنی ریاست چلے گئے اس واقعہ کو کئی برس گزر چکے ہیں اس دوران میں میں نے اور میرے کئی ساتھیوں نے جنگلستان پہنچنے کی کو شس کی مگر ناکام رہے۔نامعلوم وہ کون سا راستہ ہے جو جنگلستان کی پُرسکون ریاست تک جاتا تھا لیکن میں ابھی نا امید نہیں ہوا ہوں مجھے یقین ہے کہ ایک دن میں ضرور اس راستے کو پالوں گا جہاں اس دنیا سے کہیں زیادہ حسین دنیا آباد ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں