شکوے شکایت

عمر میں  چھوٹے لیکن عقل و فہم میں بڑے نذیر الحسن کا حکمیہ فون آیا،حسب عادت پہلے ہمارا مذاق اڑایا اس کے بعد عشق و محبت پر اتر آئے کہنے لگے کہ آپ کو پیر سمجھتا ہوں لیکن نذرانہ  سب اپنی جیب میں رکھوں گا۔ یہ جو آپ کے بالوں میں سفیدی آگئی ہے اس کی وجہ سے پیر سمجھتا ہوں۔

ان کی یہ ساری باتیں ہم نے بغور سنیں اس کے بعد کہا بھائی نذیر الحسن آپ سے واقفیت اور تعلق جو کبھی برادر یوسف کا سا لگتا ہے کم و بیش 15 برس تو بیت گئے ہیں ۔فون تو آپ نے کسی کام سے ہی کیا ہوگا اور اس لیے میٹھی زبان میں ہماری چٹکیاں لے رہے ہو۔فرمانے لگے کہ جسارت اپنا بلاگ لے کر آرہا ہے اور آپ کو بھی اس میں لکھنا ہے کب تک آپ کا بلاگ آجائے گا۔ہم نے کہا کہ بھائی ہم تو ویسے ہی جسارت سے راندہ درگاہ ہیں کچھ عرصہ پہلے تک وہاں قلم توڑتے تھے لیکن جب سے قلم میں روانی آئی تو ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ یہ آپ کے قلم میں روانی ذرا سیاسی زیادہ ہے اور خصوصاً آپ عمرانی نظریات و خرافات کے ہمنوانظر آتے ہیں اس لیے ہم آپ کو جسارت میں تو داخل نہیں ہونے دیں گے۔ہم نے بھی اپنا قلم اپنے ہی کان پر دھرا اور ڈاکخانہ کے باہر بیٹھ کر چھٹیاں لکھنے لگے کبھی کبھی منی آرڈر بھی آجاتے تھے لیکن بھلا ہو اس نئے دور کا اس نے خط کا رومانس اور ڈاکیے کی مخصوص آوازبھی ہم سے چھین لی۔

اب نہ وہ نورجہاں کی آواز رہی کہ “چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” اب تو سیاں اور میاں دونوں کے ساتھ chat ہو جاتی ہے اور وٹس اپ پر تصویر شیئر ہوجاتی ہے۔

ایک وہ زمانہ  تھا کہ شہر کا شہر عشق کا دشمن ہوتا تھااور پورا محلہ مل کر آپ کے اخلاق و کردارکی رکھوالی کرتا تھا۔گوکہ کہ کالج تک پہنچنے سے قبل علم الابدان کے بارے میں ہم صرف وہ جانتے تو جو ہم نے بزرگوں کی گالیوں سے سنا تھا لیکن اب کا بچہ شاید میٹرنٹی ہوم سے ہی میٹرک کر کے نکلتا ہے۔اور ماں باپ اس کے نرسری میں ایڈمیشن کے لیے پی ایچ ڈی کا نصاب پڑھنے لگتے ہیں بچے کے ایڈمیشن کے لیے کسی اچھے اسکول میں اس کو انٹریو دینا بچہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل لگنے لگتا ہے۔

خیر قصہ مختصر بات یہ ہورہی تھی جسارت میں بلاگ لکھنے کی۔بھائی ہم کہ ٹھیرے دقیانوسی اور ساتھ ساتھ رجعت پسندبھی اس لیے یہ بلاگ والی کہانی ہم کو آتی نہیں ہے۔

برادر نذیر الحسن کے کہنے پر قلم گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جسارت بے شمار حوالوں سے ایک راہ متعین کرنے ولا اخبار ہے اور اس نئے طریقہ تحریر میں بھی ایک راہ متعین کرے گا۔تمام دوسروں کو اس کی تقلید کرنی پڑے گی۔ہم تو آپ کے ساتھ ہمشیہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے اور اگر چھاپتے رہے تو بلاگ بھی لکھتے رہیں گے نہیں تو” اور بھی غم ہیں زمانے میں بلاگ لکھنے کے سوا”

حصہ
شکیل خان ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ ادب اور ادبی سرگرمیوں بالخصوص شاعری سے شغف رکھتے ہیں ۔

1 تبصرہ

Leave a Reply to عدیل سلیم