جو بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان

425

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ہنگامہ خیز اقتدار ختم ہوگیا۔ ہنگامہ خیز اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کا ہر دن ایک جنگجو اور تند خو انسان کے طور پر بحران پیدا کرنے میں گزار دیا۔ ان کی پالیسیاں ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے محاورے کی عملی شکل میں خطرات اور بحرانوں کو دعوت دیتی رہیں۔ اقتدار میں آتے ہی ان کی پہلی توتکار شمالی کوریا کے حکمرانوں سے ہوئی۔ بات اس قدر بگڑی کہ ذومعنی اور غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایک موقع پر تو ٹرمپ نے کم جونگ ان کو بٹن دبانے کی دھمکی بھی دی اور امریکا اور شمالی کوریا کی جنگ چند دن کی دوری پر دکھائی دینے لگی پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔ ٹرمپ سب بھول بھال کر کم جونگ ان سے جا ملے اور دونوں جب مذاکرات گاہ سے باہر آئے تو دونوں قہقہے لگا رہے تھے۔ ٹرمپ نے لفظوں کی یہی گولہ باری پاکستان پر بھی کی مگر عمران خان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ٹرمپ کا رویہ بدلتا گیا اور ان کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئیں۔ لفظوں کی یہی تیزاندازی چین اور ایران کے ساتھ بھی جاری رہی مگر امریکا ایران کے ایک جنرل اور ایک سائنس دان کو قتل کرنے سے زیادہ کچھ اور نہ کرسکا۔ ٹرمپ اقتدار ایک ایسا بادل تھا جو پانچ سال تک پوری قوت سے گرجتا تو رہا مگر اس کے برسنے کی نوبت نہیں آئی بلکہ ٹرمپ نے پہلے سے جاری جنگوں کے کھلے دفتر لپیٹنے کی حکمت عملی اختیار کی اور شاید اپنے جامے میں واپس سمٹنا امریکا کی طاقتور لابیوں کو گوارا نہیں تھا اور انہوں نے ٹرمپ کی رخصتی کا ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ٹرمپ قصۂ پارینہ بن گئے اور ایک گھاک اور زمانہ شناس جماندرو سیاست دان جوبائیڈن قصرِ سفیدکے مکین بن گئے ہیں۔ جو بائیڈن نے صدر اور سیاہ فام خاتون کملا ہیرس نے نائب صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا۔ ٹرمپ امریکا کی ایک پچاس سالہ جمہوری تاریخ کے وہ واحد صدر ہیں جنہوں نے اپنے جانشین کی حلف برداری میں شرکت سے احتراز کرتے ہوئے وائٹ ہائوس خالی کر دیا۔ واشنگٹن ڈی سی ایک فوجی چھائونی کا منظر پیش کرتا رہا اور پچیس سو فوجی شہر میں تعینات رہے۔ اس کی وجہ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے ہنگاموں کا خطرہ تھا۔ حلف برداری کے روز تو ہنگامے نہ ہوئے مگر امریکا کی سیاست میں تقسیم کی ایک ایسی لکیر اُبھر چکی ہے جو اپنے اثرات ظاہر کرتی رہے گی۔
جوبائیڈن کا دور اقتدار پاکستان کے لیے کیسا ہوگا؟ یہ سوال قبل ازوقت ہے مگر اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ جو بائیڈن گو کہ آصف زرداری سے نشان پاکستان کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں مگر ان کی دوستی پاکستان کی ریاست کے بجائے اس وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ہی معلوم ہو رہی تھی اور اسی دوستی کے عوض انہیں نشان پاکستان عطا کیا ہے۔ اس سے پہلے کلنٹن بھی میاں نواز شریف کے ذاتی دوست سمجھے جاتے تھے۔ اس سے پہلے صدر ریگن بھی سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کی مشترکہ لڑی میں پروئے ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کے ذاتی دوست تھے۔ پاکستان کے سویلین اور فوجی حکمرانوں کے ذاتی دوست مملکت اور ریاست پاکستان کے لیے زیادہ سود مند نہیں رہے۔ اس لیے جوبائیڈن کی شخصی دوستی اور تعلق سے پاکستان کے حوالے سے کسی غیر معمولی اور مثبت قدم کی زیادہ امید نہیں رکھ سکتی۔ اس انتظامیہ میں امید کا ایک پہلو نائب صدر کملا ہیرس ہیں جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حامی ہیں۔ کمیلا ہیرس نے پانچ اگست کے بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ماضی میں ایک اور سیاہ فام امریکی صدر بارک اوباما نے بھی اپنی انتخابی مہم میں مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کے دعوے کیے تھے مگر وقت یوں بدلا کہ باراک اوباما بھارت کے قریب ہوگئے اور کشمیر پر ان کے دعوے محض انتخابی وعدے ثابت ہوئے۔ اس ماضی کو دیکھیں تو کملا ہیرس سے بھی پاکستان اورکشمیر کے حوالے سے کسی انقلابی تبدیلی کی امید عبث ہے۔ اس کے باوجود بھارت کملا ہیرس کے بیانات کی وجہ سے ایک انجانے خوف کا شکار ہے جس کا اظہار بھارتی میڈیا انتخابی مہم کے دوران بھی کرتا رہا۔
ٹرمپ کے دور میں امریکا اور بھارت کے پہلے سے پرجوش تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہو گئی تھی۔ ٹرمپ نے فرط ِ جذبات میں بھارت کا دورہ بھی کیا۔ جواب میں مودی نے امریکا جا کر ’’ہاوڈی مودی‘‘ کا ناٹک رچایا۔ مودی نے پانچ اگست کے قدم سے پہلے ٹرمپ کو اعتماد میں لیا تھا اس کا لاگ لپیٹ کر اظہار ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مودی نے مجھ سے کشمیر کے حوالے سے مدد مانگی تھی۔ یہ مدد مسئلے کے حل کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کو غیر معمولی ردعمل سے روکنے کے حوالے سے تھی اور مدد کی یہی اپیل عرب ملکوں سے بھی کی تھی۔ امریکا اور عرب ملکوں نے خاموش رہ کر عملی طور پر بھارت کی مدد ہی کی۔ کملا ہیرس اگر اپنے دعوے کے مطابق کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں تو یہ ایک بڑی سفارتی پیش رفت ہو سکتی ہے۔