مذاکرات کی پر چھائیاں

403

یہ کہنا مشکل ہے کہ شہباز حکومت ملک چلارہی ہے یا ملک شہباز حکومت کو چلارہا ہے البتہ یہ کہنا قرین حقیقت ہے کہ ملک اور حکومت دونوں کو اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے۔ حکومت دودو نوکریاں کررہی ہے۔ ایک ملک کی اور دوسری اسٹیبلشمنٹ کی۔ تحریک انصاف کے حالات اور حوالات کے بیان میں کتنی ہی مماثلت ہو لیکن مذاکرات سے عمران خان جس طرح مسلسل انکارکرتے چلے آرہے ہیںوہ کسی سیاست دان کے بس کی بات نہیں سوائے ایک پاپولسٹ لیڈر کے۔ اب تک سیاست دانوں سے مذاکرات سے وہ اس طرح دامن بچاتے آئے ہیں جس طرح فیمی نزم زدہ خواتین چادر اور چار دیواری سے۔ سیاست دان کسی عہدے تک پہنچتے ہیں اس سے پہلے وہ سیاسی تدبر اور مفاہمت کے مدارج طے کرلیتے ہیں جن میں سے ایک مذاکرات بھی ہے۔ عمران خان مذاکرات وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں لوگ جو سننا چاہتے ہیں، ایسی عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں جس سے سیاسی اہداف حاصل ہوتے ہوں۔ وہ طوفان اور سونامی کی طرح اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

اب جب کہ ہم ایک بے وسیلہ ریاست سے زیادہ کچھ نہیں ہم کسی سے کوئی بھی مطالبہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ نہ اپنی افواج سے کہ وہ کاروباری مصروفیات چھوڑ کر ہماری حفاظت کرے، نہ حکومت سے کہ وہ مہنگائی کم کرنے کے لیے کچھ کرے یا پھر اپنا تختہ الٹنے میں ہماری مدد کرے۔ نہ آئی ایم ایف، امریکا اور چین سے کہ وہ ہم سب ہم وطنوں کو برابر کا شہری بننے میں مدد دینے کے لیے بھی ایک امدادی پیکیج اعلان کرے۔ فضول کاموں کی ہمارے پاس کمی نہیں پھر ہم خود کو ایسے مذاکرات کا جھانسا کیوں دے رہے ہیں جو کوئی بھی کرنا نہیں چاہتا، جن سے کوئی بھی مخلص نہیں، نہ حکومت، نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ بانی تحریک انصاف۔ پاکستان بہت خو بصورت ملک ہے۔ یہ ملک ہمیں بہت پیارا ہے لیکن اب طے یہ پایا ہے کہ اس ملک کے شہریوں کو سستی پیاز آلو اور ٹماٹر اس وقت تک میسر نہیں آسکتے جب تک ہم بھارت سے تجارت نہ کھول لیں۔ مودی جی الیکشن سے فارغ ہولیں پھر ہم بھارت سے تجارت پر مذاکرات کریں گے۔ یہ ہیں وہ مذاکرات جن پر ہم سنجیدہ ہیں۔ شہباز حکومت سمجھتی ہے اس کی بقا عمران خان سے مذاکرات میں نہیں لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی میں ہے تاکہ واقعتا وہ اگلا الیکشن جیت سکیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اب کچھ بھی یقینی نہیں رہا۔ اگر کچھ یقینی ہے تو وہ الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت کے بارے میں قیاس اور اندازہ ہے۔ اس کے لیے آپ کو میڈیا میں ابلاغ کے منتر سمجھنے کی ضرورت ہے اور نہ عقل کے پتلوں کے ٹاک شوز میں سچ جھوٹ کا تخمینہ۔ اگر کچھ کرنا ہے تو بس جنرل ہیڈ کواٹر کے ہلتے ہوئے سر پر نظر رکھنا ہے، کس سمت ہل رہا ہے اور کس کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ جوں ہی آپ یہ سب کچھ سمجھ لیں گے مستقبل کا منظرنامہ تیز برستی ہوئی بارش کی طرح آپ کو دکھائی دے گا۔ 2018 کے الیکشن میں دیکھنے والوں کو صاف دکھائی دے رہا تھاکہ عمران خان کی باری ہے۔ 8فروری 2024 کے الیکشن میں کس سے پوشیدہ تھا کہ ن لیگ کو سسٹم چلانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

اس ملک میں جہاں ہر مرد عورت اور بچہ سب اپنے لیے سوچ رہے ہیں تو پھر ن لیگ اپنے لیے کیوں نہ سوچے۔ جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے سوائے نمائشی اقتدار کے۔ یہ ٹھیک ہے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک ہی منزل ہے ملک کی سلامتی اور بقا کی منزل۔ جس کے لیے ن لیگ قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ جسے تمام مشکل اور نا پسندیدہ فیصلوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا ہے۔ اس طرح ملک تو بچ جائے گا لیکن ن لیگ وڑجائے گی۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی، یہ محبت تو ہم کو گوارا نہیں۔ تو پھر کوئی بہتر راستہ نکالنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ سے اسپیس مانگنا ہوگی۔ لیکن مانگے سے کیا ملتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اس مقصدکے حصول کے لیے، اسٹیبلشمنٹ سے اسپیس لینے کے لیے، تحریک انصاف سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایسے میں اگرن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، افہام وتفہیم کی فضا بنتی ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول ہوگی۔ جان کھپا کر اسٹیبلشمنٹ نے جو سیٹ اپ تیار کیا ہے کسی صورت وہ اسے برباد ہوتے نہ دیکھ سکے گی۔ نو مئی کے بد معاش مذاکرات کے ذریعے پھر اقتدار کے ایوانوں کے گرد منڈلانے لگیں اس سے بہتر نہیں ہے کہ شہباز حکومت کے اختیارات کی رسی کچھ دراز کردی جائے؟ انہیں کچھ اور عطا کردیا جائے؟ اسی کا نام سیاست ہے، سیاست میں اسی طرح مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جال پھینکے جاتے ہیں؟ ورنہ عمران خان سے مذاکرات؟؟

عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ جس طرز فکر کے وہ حامی ہیں، اس میں ووٹ تو مل جاتے ہیں، حکومت بھی بن جاتی ہے لیکن ملک نہیں چلتے۔ وہ ایک پاپو لسٹ لیڈر ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اسے کرنے میں ذرہ بھر دلچسپی نہیں رکھتے۔ کسی زمانے میں وہ بڑے بڑے گورنر اور پرائم منسٹر ہائوسز کی عمارتوں کو گراکر یونی ورسٹیاں بنانے کے دعوے کرتے تھے۔ پونے چار سال کی حکومت میں مجال ہے انہوں نے اس باب میں ایک دیوار گرائی یا ایک دیواربھی اٹھائی ہو۔ معیشت کو درست طور پر استوار کرنے کے جوکھم میں پڑنے کے بجائے انہوں نے لوگوں کو راستہ دکھایا کہ نوازشریف زرداری چور اور ڈاکو ہیں ان کے پیٹ پھاڑیں گے تو غریبوں کی غربت دور ہوجائے گی۔ پاکستان کا تین سو ارب ڈالر جو کرپشن کے ذریعے باہر بھیج دیا گیا ملک میں واپس آئے گا تو تمام قرضوں سے نجات مل جائے گی، ملک تیزرفتار ترقی کی سمت رواں ہوجائے گا لیکن اس معاملے میں وہ لوگوں کے سامنے ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے کہ دنیا کے کس ملک میں اس طرح ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جس کی معیشت اس طرح چلی ہو۔ پونے چارسالہ حکومت میں وہ لوٹے ہوئے ایک ہزار ڈالر بھی ملک میں واپس لاسکے اور نہ اندرون ملک ہی کسی کا پیٹ پھاڑ سکے اور نہ اسی کی جرأت کا مظاہرہ کرسکے۔ وہ تو اپنا سر بچانے کے لیے بھی کسی ہمت کا مظاہرہ نہ کرسکے سوائے بالٹیاں سر پر پہننے کے۔ پاپو لزم لوگوں کی نفسیات سے کھیلنے، انہیں پھانسنے کا اور نئے نئے بیانیے وضع کرنے کا نام ہے۔ عمران خان اس کے ماہر ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس تمام دوعملی اور منافقت کے باوجود عمران خان کا ووٹر ایک فرقے Cult کے کسی فرد کی طرح ان کی محبت میں دیوانہ ہے۔ آج بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ عمران خان کے علاوہ تما م سیاست دانوں کو ایلیٹ کلاس کا نمائندہ، چور اور ڈاکو سمجھتا ہے۔ وہ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ عمران خان ان چوروں اور ڈاکوئوں سے مذاکرات کریں، یا پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملائیں جب کہ عمران خان کی صورتحال یہ ہے کہ وہ شہباز حکومت اور سیاست دانوں سے مذاکرات کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ان کی مدد سے واپس حکومت میں آنا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر پھر حکومت چلانا چاہتے ہیں۔ یہ مقاصد وہ مذاکرات کے بجائے عوامی دبائو بڑھا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ لاکھ حکومت سے مذاکرات کا عندیہ دیں وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔