امریکی خواتین بھی عدم مساوات کا شکار نکلیں! ،معاملہ عدالت پہنچ گیا

741

واشنگٹن (رپورٹ: مسعود ابدالی)امریکا میں بھی خواتین عدم مساوات کا شکارنکلیں۔معاملہ عدالت پہنچ گیا۔امریکا کی موقر جامعہ رجرز (Rutgers University)کے کلیہِ قانون سے وابستہ 5 خواتین پروفیسرز نے مردوں کے برابر تنخواہیں نہ ملنے پرعدالت کا دروازہ کھٹکھٹادیا۔یعنی مسلم معاشروں میں بچیوں کے سر پر بندھے اسکارف کو خواتین کی غلامی قراردینے والا مغرب اپنی خواتین کو مردوں کے برابر اجرت دینے کو تیار نہیں۔قابل ذکربات یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح اب امریکا میں بھی تعلیمی اداروں کی نجکاری عروج پر ہے اور فروغِ تعلیم کا مقدس مشن فروخت تعلیم کے مکروہ کاروبار میں تبدیل ہوتاجارہاہے۔جامعہ رجرز کا لا اسکول سرکاری انتظام میں چلنے والا قانون کی تعلیم کاسب سے بڑاادارہ ہے جہاں 1200کے قریب طلبہ زیرتعلیم ہیں۔تعلیمی معیار کے حوالے سے امریکا کے 201 کلیہ قانون میں یہ 41 ویں درجے پر فائز ہے۔ رجرز کی خواتین پروفیسرز کو شکایت ہے کہ ان کی تنخواہیں یکساں صلاحیت و تجربے کے حامل مرد پروفیسرز سے کئی ہزار ڈالر کم ہیں، یہ اس جامعہ کے کلیہ قانون میں اپنی نوعیت کا دوسرا مقدمہ ہے۔اس مقدمے کی مدعی پانچوں پروفیسر، معروف اور انتہائی قابل و تجربہ کار ہیں۔ ان ماہرین کے سیکڑوں گرانقدر مقالے شائع ہوچکے ہیں اور 2 خواتین کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ بھارتی نژاد ڈاکٹر دیپا کمار نے اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کیخلاف بھی کئی مقالے لکھے ہیں۔ توہین آمیز خاکوں اور قرآن جلانے کی کارروائی کو شریمتی کمار نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے عالمی قانون سازی کی تجویز دی ہے۔ گروپ کی ترجمان پروفیسر نینسی وولف نے کہا کہ قانون کی کلاس میں ہم پہلا سبق یہی دیتے ہیں کہ انصاف و مساوات کو یقینی بنانا ہر وکیل کی بنیادی ذمے داری ہے اورگریجویشن کی تقریب میں نئے وکلا سے اسی اصول کی بالادستی کا حلف بھی لیا جاتا ہے۔ آجر کی جانب سے بلاامتیاز یکساں اجرت ہر ملازم کا حق اور اس سے روگردانی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔چند روز قبل اسی ریاست کی جامعہ پرنسٹن (Princeton University)نے ایک تنازعے میں اپنی خواتین پروفیسرز کو 12 لاکھ ڈالر اداکیے ہیں۔ اسی قسم کے مقدمات جامعہ شمالی مشیگن، جامعہ ایرزونا اور جامعہ ڈینور کی خواتین اساتذہ کی طرف سے بھی دائر کیے گئے ہیں۔ستم ظریفی کہ امریکا انسانی حقوق اور صنفی مساوات کا علمبردار ہے لیکن اجرت میں تفاوت کے اعتبار سے امریکی خواتین بھی ایشیائی و افریقی خواتینکی طرح امتیازی سلوک کی شاکی ہیں۔ صنفی مساوات کے موضوع پراقوام متحدہ ہر 5سال بعد ایک عظیم الشان عالمی خواتین کانفرنس منعقد کرتی ہے۔اس سلسلے کا آغاز 1995ء کی بیجنگ کانفرنس سے ہوا جس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلانِ بیجنگ میں صنفی مساوات کو عالمی قانون کا درجہ دے دیا گیا۔ اس اعلان پر پاکستان سمیت189 ممالک نے دستخط کیے ہیں جبکہ اسقاط حمل کے مسئلے پر امریکا اور ویٹیکن نے اختلافی نوٹ لکھے۔ بیجنگ کانفرنس بعد میں منعقد ہونے والے اجتماعات کے لییسنگ میل قرار پائی اورانہیں بیجنگ پلس 5 ، بیجنگ پلس 10،بیجنگ پلس 15اور بیجنگ 20 کے نام دیے گئے۔ کورونا کی وجہ سے بیجنگ 25 اس سال جون میں بصری یا Virtual ہوئی۔ان کانفرنسوں میں امریکیاین جی اوز بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں لیکن عہدِ بیجنگ پر عملدرآمد کے لیے جب ایک تفصیلی جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ امریکا میں جس کام کا معاوضہ خواتین کے لیے 71سینٹ ہے مردوں کو اسی کام کاایک ڈالر دیا جاتاہے حالانکہ اس سلسلے میں Fair Standard Labor Actکے عنوان سے ایک قانون نافذالعمل ہے جسے عرف عام میں یکساں مٰعاوضے کا قانون کہا جاتاہے۔ اس سروے کے منظر عام پر آتے ہی مساویانہ قانون سازی کی کوششیں شروع ہوئیں اور منصفانہ اجرت کا بل (Paycheck Fairness Act)ایوانِ نمائندگان میں پیش ہوا۔ طویل بحث و مباحثے اور کئی ترامیم کے بعد یہ بل جولائی2008ء میں ایوان زیریں سے منظور ہوگیا۔ مخالفت میں ڈالے گئے تمام 178 ووٹ ریپبلکن پارٹی کے تھے جس نے رائے شماری کو مؤخر کرنے کے لیے لمبی تقریروں، غیر ضروری ترامیم اور قانونی موشگافیوں سمیت وہ تمام مروجہ ہتھکنڈے استعمال کیے جسے امریکا کی پارلیمانی زبان میں Filibuster کہا جاتاہے۔ ضابطے کے مطابق ایوانِ زیریں سے منظوری کے بعد یہ بل اگست 2008ء میں امریکی سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ ایوانِ بالا میں بھی ڈیموکریٹس کو واضح برتری حاصل تھی لیکن ریپبلکن پارٹی مختلف حیلوں بہانوں سے اس بل پر رائے شماری مؤخر کراتی رہی حتیٰ کہ وسط مدتی انتخابات ہوئے اورایوانِ زیریں سے ڈیموکریٹس کی برتری ختم ہوگئی۔ انتخابات کے بعد سینیٹ کے قائد ایوان ھیری ریڈ نے یہ بل سینیٹ میں پیش کرنے کا اعلان کیا اورریپبلکن پارٹی نے ایک بار پھر تاخیری حربے اختیار کرکے اسے غیر موثر کردیا۔ دلچسپ بات کہ ریپبلکن پارٹی کی خواتین ارکان نے اس مسئلے پر خواتین کا ساتھ دینے کے بجائے اپنی پارٹی سے وفاداری کو ترجیح دی۔ 2007ء میں پیش ہونے والا یہ مسودہ قانون آج تک امریکی مقننہ سے منظور نہ ہوسکا جب کہ منصفانہ اجرت قانو ن کی بازگشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ حسب توقع ریپبلکن پارٹی اس کی مخالفت کے لییپرعزم ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے بھی کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔