ای ایف پی کا بھارت کو چھوہارے برآمد کرنے کا مطالبہ

585

برآمد معطل ہونے سے کاشتکاروں ، برآمدکنندگان کو خطیر نقصانات کا سامناہے، اسماعیل ستار

بحال ہونے سے تجارتی خسارے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے،صدر ایمپلائز فیڈریشن

کراچی

ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان ( ای ایف پی) کے صدر اسماعیل ستار نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت واہگہ بارڈر کھولے جانے کے بعد بھارت کو چھوہارے کی برآمد دوبارہ شروع کی جائے۔ یہ معاہدہ افغانستان کو بھارت کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت دیتا ہے۔ اس مثبت پیشرفت کے ساتھ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کو چھوہارے کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔

اسماعیل ستار نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہاکہ پاکستان تازہ کھجوروں کی پیداوار کے لحاظ سے صف اول ملکوں میں سے ایک ہے اور کھجوروں کی پیداوار کے لحاظ سے عالمی سطح پر پانچویں نمبر پر ہے۔بھارت کئی برسوں سے چھوہارے درآمدکرنے والا سب سے بڑا درآمدکنندہ ملک ہے اور پاکستان کو2018 میں 92ملین ڈالر کی قیمتی برآمدی آمدنی حاصل ہوئی۔ انہوں نے بتایاکہ دو سال قبل 95.6فیصد چھوہارے بھارت برآمد کیے گئے تاہم پاکستان بھارت دوطرفہ تجارتی تعلقات خراب ہونے سے کاشتکاروں اور برآمدکنندگان کا معاش جبکہ اس سے وابستہ افراد کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ۔صدرای ایف پی نے بلوچستان اور خیرپور کی صورتحال پر خاص طور پر تشویش کا اظہارکیا

کیونکہ یہ خطہ کھجوروں کی ملکی مجموعی پیداوار میں 92 فیصدکا حصہ دار ہے۔50 فیصدکھجوریں بلوچستان میں اور 42فیصد خیرپور میں کاشت کی جاتی ہیں لہٰذا بھارت کی منڈی دستیاب نہ ہونے سے چھوہارے کی تجارت کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔پاکستان میں کھجوروں کی کٹائی کا موسم جولائی سے ستمبر تک ہوتا ہے جس کومدنظر رکھتے ہوئے اس پر فوری توجہ دینے اورمتعلقہ قومی پالیسی کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان کہیں اپنی برآمدات کی ممکنہ آمدنی سے محروم نہ ہوجائے جو موجودہ تجارتی خسارے پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے

محنتی کاشتکاروں اور برآمد کنندگان کی مدد کرسکتا ہے کیونکہ کورونا کی عالمی وبا نے پہلے ہی مقامی معیشت کو انتہائی پستی کی طرف دھکیل دیا ہے۔اسماعیل ستار نے حکومت کو تجویز دی کہ کورونا وبا کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے اور تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بھارت کو چھوہارے برآمد کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں نہ صرف ملکی برآمدات کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ مقامی آبادی کو روزگار اور آمدنی کے خاطر خواہ مواقع میسر آئیں گے۔