منور حسن کا اسلامی نقلاب کا خواب پورا ہوگا،شمس سواتی

165

نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 26 جون 2020 کو سید منور حسن اپنے اللہ کو پیارے ہوکر رحمتہ اللہ علیہ ہوگئے، سید منور حسن کی وفات کا دوہرا صدمہ ہے ایک یہ کہ وہ ہم میں نہیں رہے اور دوسرا یہ کہ اب ان جیسا کوئی بھی نہیں، جب اس قوم کو اور اسلامی انقلاب کی تحریک کو ان جیسے لوگوں کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
فروری 2012 کو نیشنل لیبر فیڈریشن کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آئی تو ہم نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ میں Sector Formal (فارمل سیکٹر) کے ساتھ Sector Informal میں کام کرنے اورانفارمل سیکٹر لیبر کی حالت زار کو بہتر بنانے، انہیں سماجی تحفظ کے قوانین اور لیبر قوانین کے دائرے میں لانے کا طے کیااور سرمایہ داری جاگیرداری نظام کے خلاف ایک بڑی مہم کا آغاز کیا تو ہمیں ہر مسئلے پر سید منور حسن کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل رہی، اس حوالے سے ہم نے ملک بھر میں بڑے پروگرام کیے خاص طور پر ایوان اقبال لاہور کے مزدور کنونشن میں وہ ہمارے مہمان خصوصی تھے اور ہمارے پروگرام میں اول تا آخر شریک رہے۔ جب 2013 میں نواز شریف کی حکومت آئی تو انہوں نے ماضی کی طرح قومی اداروں کا جمعہ بازار لگایا، ہم نے اینٹی نجکاری تحریک کا آغاز تو سید منور حسن کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ہماری پشت بانی کی اور سید منور حسن نے منصورہ میں ایک اینٹی نجکاری آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی اور اس میں حکمرانوں کو قومی اداراوں کو اونے پونے بیچنے اور مزدوروں کو بے روزگار کرنے سے منع کیا اور للکارا کہ ہم مزدوروں کو بے روزگار کرنے اور قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کی مزاحمت کریں گے، اسی حوالے سے لاہور پریس کلب کے باہر ایک بڑا اینٹی نجکاری مظاہرہ جس کا اہتمام نیشنل لیبر فیڈریشن لاہور نے کیا تھا، اس کی قیادت بھی سید منور حسن نے کی تھی اور سرمایہ داری نظام کو چیلنج کیا کہ وہ قومی اداروں کہ اونے پونے فروخت اور مزدوروں کو بے روزگار کرنے سے باز رہے۔ الحمد اللہ اس مرد درویش کی اس للکار اور جرات مندانہ قیادت نے بڑے قومی اداروں کو اْس وقت بچا لیا اور اس سے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچ گئے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی بڑی سادگی سے گزاری جس طرح ایک مزدور دنیا کی آسائشوں سے محروم ہوتا ہے، انہوں نے بندگی رب اورعشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں رضاکارانہ طور پر خود کو اِن آسائشوں سے دور رکھا۔
آج جب ہم حکمرانوں کی یہ داستانیں سنتے ہیں کہ دوروں کے موقع پر ملنے والے قیمتی تحائف کو یہ قانون ہوتے ہوئے بھی کہ اْن پر حکمرانوں کا کوئی حق نہیں ہے وہ قومی خزانے میں جمع ہوں گے، کروڑوں اربوں کے تحائف حکمرانوں نے اپنی ذات کے لیے استعمال کیے، ایسے میں وہ مرد درویش کہ ’’جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ‘‘۔ اس ماحول میں سید منور حسن صاحب نے ذمہ دار کی حیثیت سے جب بھی اْنہیں دوروں کے موقعے پر کوئی تحفہ ملا اْنہوں نے اْسے جماعت کے بیت المال میں جمع کرادیا، شفیع نقی جامعی صاحب نے لکھا ہے کہ برطانیہ کے دورے کے موقع پر اْنہیں اْن کی بھانجی نے جو تحائف دیے جو کہ رشتے کی وجہ سے اْن کی ذات کے لیے تھے وہ بھی انہوں نے جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیے کہ یہ دورہ بھی تو میں نے جماعت کے ذمہ دار کی حیثیت سے کیا ہے اور پھر بیٹی اور بیٹے کی شادی کے موقع پر ملنے والے تمام تحائف انہوں نے جماعت کے بیت المال میں جمع کرائے اور دونوں شادیاں جس سادگی سے کیں، اْن کی مثال آج کے دور میں ممکن نہیں ہے۔ سید منور حسن مرحوم و مغفور کی مزدوروں سے محبت اس لیے تھی کہ وہ بندگی رب اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں کو پورا کرنے والے تھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک مزدور کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے اور اْسے اپنے سینے سے لگایا کہ اس کے میلے کچیلے کپڑے اور پسینے سے شرابور ہونے کی وجہ سے بدبو آرہی تھی اور کمال محبت سے اْس سے پوچھا کہ بتائو میں کون ہوں تو اْس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ظلم کی اس بستی میں آپ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے جو میلے کچیلے مزدور کے ساتھ اس طرح محبت سے پیش آئے۔
سید منور حسن بھی اسی طرح مزدوروں سے محبت کرتے تھے، اْن کے حالات کو دیکھ کر کڑتے تھے، انہی مزدوروں کسانوں کے لیے اْنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے وقف کیے رکھی۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ان کا یہ خواب پورا ہوگا، اس ملک میں اسلامی انقلاب آئے گا اور ظلم کی ساری صورتوں کو مٹائے گا، امن و خوشحالی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سید منور حسن کی قبر کو منور فرمائے اور جنت الفردوس میں اْنہیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔