اس شہر سے جو لوگ منتخب ہوتے رہے ہیں وہ اس شہر کے مسائل حل نہیں کرا سکے،سید مراد علی شاہ

517

کراچی(اسٹا ف رپورٹر)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کے سیاست دان،ادیبوں اور دانشوروں سے سیکھیں آج ملک کو ترقی کی ضرورت ہے وہ اتفاق اور تدبر سے ہی ہو سکتی ہے، 12ویں عالمی اْردو کانفرنس کے مندوبین آرٹس کونسل کے نہیں حکومت سندھ کے مہمان ہیں اور سندھ حکومت میزبانی کا حق ادا کرے گی۔ مجھے اس کانفرنس میں شرکت کر کے خوشی ہوئی ہے۔ اس شہر سے جو لوگ منتخب ہوتے رہے ہیں وہ اس شہر کے مسائل حل نہیں کرا سکے،

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کی شام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں 12ویں عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 24 ممالک سے دو سو سے زائد مندوبین شریک ہوئے ہیں۔کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مختلف سیاسی سماجی و ادبی شخصیات نے شرکت کی،

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان مختلف ثقافتوں کا ملک ہے اور ہر ثقافت پاکستان کی ثقافت ہے ہر صوبے میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس جب کا نفرنس شروع ہوئی تو فہمیدہ ریاض ہم سے بچھڑ گئی تھی اور آج جوش ملیح آبادی کی سالگرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل نے مختلف ادب اور زبانوں کے ادیبوں کو یہاں جمع کر کے اچھا اقدام کیا سندھ کے لوگ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں آج کی کانفرنس سے یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اردو کے ساتھ پاکستان کی مختلف زبانیں پورے ملک کی ثقافت ہے وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم سب مل کر ملکی مسائل کا مقابلہ کر سکتے ہیں،

انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل جو خدمات انجام دے رہی ہے اس کی ہر ممکن مدد اور تعاون کیا جائے گا وزیر ثقافت سندھ سردار علی شاہ نے کہا کہ ہم نے دانشوروں سے لکھنا پڑھنا چلنا سیکھا۔اج کی اردو کانفرنس کلچرل ہارمنی قائم کرنے کی طرف قدم ہے۔ انہوں نے کہا جتنے لکھنے والے کانفرنس میں شریک ہیں ان سب کی پاکستان کو ضرورت ہیپنجابی سندھی پشتو اور بلوچی شعراء نے پاکستان کی خدمت کی ہیان سب نے امن اور برداشت کا درس دیا،انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر لہجے میں اردو دیکھی ہے۔ جس طرح سندھ ندی نے اپنے دونوں کناروں پر کشمیر سے کشمور تک لوگوں کو جوڑا ہو ہے اسی طرح اردو نے پورے برصغیر کو جوڑا ہوا ہے۔ہمیں کسی بھی زبان سے نفرت نہیں بلکہ سب سے پیار ہے۔ پہنجاب سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے شاعروں نے انسانیت کی خدمت اور محبت کے فروغ کا درس دیا ہے آج اس کو فروغ دینے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے،

آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ کہا کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جذبے کے ساتھ پوری دنیا سے ادیب اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ یہ کانفرنس ایسی کہکشاں ہے جہاں ادب کے چمکتے ستارے شامل ہیں ارہ سال پہلے سوچا تھا کہ اردو کے لیے کچھ کرنا چاہیے کوشش جاری ہے انہوں نے کہا کہ اردو کی بھی ذمے داری ہے کہ ہزاروں سال پرانی زبانوں کے لیے اپنا سینہ کشادہ کریاسی لیے ہم نے اس مرتبہ ملک کی دوسری زبانوں کو بھی شامل کیا اور یہ اردو کانفرنس قومی ثقافتی کانفرنس میں تبدیل ہو گئی ہے،

انہوں نے کہا کہ ہمیں ساری زبانوں کو سراہنا چاہییہمارے شہر میں ہزاروں لوگ قتل ہوئے ہم کب تک آپس میں لڑتے رہیں گے۔پرامن معاشرے کے علاوہ ترقی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب نے اردو کو بہت سپورٹ کیا سندھ میں بڑے بڑے سندھی شاعروں نے اردو میں شاعری کی اس کانفرنس میں پہلی بار صرف اردو کی بات نہیں ہو گی پاکستان کی مختلف زبانوں کے الگ سیشن رکھے گئے ہیں۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تسلسل کے ساتھ ہر سال جاری رہنے والی عالمی اْردو کانفرنس کی بارہویں تقریب کا انعقاد 5دسمبر جمعرات کی شام پْروقار انداز میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آڈیٹوریم میں کیاگیا جس میں بھارت سمیت دْنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے شعراء، ادیبوں اور اسکالروں نے شرکت کی،

افتتاحی اجلاس کی صدارت معروف ادبی شخصیات زہرا نگاہ، اسد محمد خاں، کشور ناہید، رضا علی عابدی، افتخار عارف، امجد اسلام امجد، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مسعود اشعر، حسینہ معین، چین سے آئے ہوئے ٹینگ مینگ شنگ، جاپان سے تعلق رکھنے والے ہیروجی کتاوکا، زاہد حنا، نورالہدیٰ شاہ اور عارف نقوی نے کی جبکہ بھارت سے آئے ہوئے ممتاز نقاد، ادیب اور دانشور پروفیسر شمیم حنفی اور ہیومن رائٹس آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے ادب اور سماج کے حوالے سے اپنے اپنے مقالے پیش کیے،

اجلاس کی نظامت کے فرائض ایوب شیخ نے انجام دیئے، اجلاس میں شریک تمام شعراء اور ادباء کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے خوش آمدید کہا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہاکہ کسی جزیرے میں رہ کر نہ ہی کوئی شعر تخلیق کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی افسانہ لکھا جاسکتا ہے، زندگی کی رفتار تیز سے تیز تر ہورہی ہے جبکہ ادب کی رفتار سست ہوتی ہے، ہم نے زمین کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی آلودہ کردیا، شور شرابے میں بہترین ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا، معاشرہ میں یہ صورتِ حال ہوتو ادیبوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آج ہم جن اندھیروں میں موجود ہیں اس کی وجہ ہماری بے تحاشہ اور اندھا دھند ترقی بھی ہے،

انہوں نے کہاکہ شعر اور ادب کی تخلیق کبھی بھی ہانپتے کاپنتے نہیں کی جاسکتی، ادبی اخلاقیات کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، تاریخ اور سماجیات کی دْنیا علیحدہ علیحدہ ہیں، گلوبلائزیشن کے نام پر ہم مستقل جھوٹ بھول رہے ہیں، یہ بہت ضروری ہے کہ ہمیں آج کے دور کے ساتھ اپنی روایات کو دوبارہ سمجھنا ہوگا، انہوں نے صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ کو مسلسل بارہویں بار عالمی اْردو کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور ان کی ٹیم کی صلاحیتوں کو سراہا،انہوں نے ازراہِ تفنّن کہاکہ احمد شاہ جس تسلسل کے ساتھ اور پابندی سے عالمی اْردو کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اس سے کم از کم مجھے اپنی عمر کی پیمائش کا ایک ذریعہ بھی ہاتھ آگیا ہے، انہوں نے کہاکہ بھارت میں 23زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، ہم ابھی اخلاقی پسماندگی کے دور میں رہ رہے ہیں مگر یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب کو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا،

ہیومن رائٹس آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے کہاکہ عالمی اْردو کانفرنس کا اجتماع ہم سب کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے حالات و واقعات سے کس قدر باخبر ہیں، اس عہد میں ہم بالخصوص دو بحرانوں کا شکار ہیں جس میں ایک فطرت اور دوسرا سماجی بحران ہے، آزادیئ اظہار پر قدغن ہے، مذہب اور قوم پرستی کی آڑ میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں، تجارتی ذرائع ابلاغ کی سنسنی خیزی ہمارے معاشرے میں انتشار پیدا کررہی ہے،

انہوں نے کہاکہ ہماری ریاست نے اب تک شہریوں کو اپنی رعایا سمجھا ہوا ہے، ہماری علمی پسماندگی نے اجتماعی فکر کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے،علمی نظریہ سازوں کے فقدان کے باعث ہم تعصب، خوف اور غصے کا شکار ہیں اس صورتحال میں ہمارے پاس لے دے کر اگر کچھ بچا ہے تو وہ صرف فن اور ادب ہے جہاں اب تک کوئی کال نہیں،

انہوں نے کہاکہ ادب کا یہ کردار انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو جگائے، جھنجھوڑے اور اس میں ایک تحریک پیدا کرے جس کی بدولت وہ اپنے سفر کو بغیر کسی خوف کے آگے کی طرف رواں دواں رکھ سکے، فیض احمد فیض جیسے شعراء صرف اپنی شاعری کی وجہ سے آگے نہیں ہیں بلکہ ان کا یہ مقام اس لیے ہے کہ انہوں نے سب کچھ اپنے اندر سمو لیاتھا، افتتاحی اجلاس کے اختتام پر جوش ملیحہ آبادی کی 121ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کی مناسبت سے خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ جس کا عنوان”غالب ہمہ رنگ شاعر“ تھا اجلاس کی صدارت بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب شمیم حنفی نے کی جبکہ اجلاس میں ڈاکٹر نعمان الحق نے”یگانہ اور مثال زمانہ گونہ گوں“،تحسین فراقی نے ”حیات اور تصور حیات“ اور ہیروکتاؤجی نے اپنا مقالہ پیش کیا، نظامت کے فرائض ناصرہ زبیری نے انجام دئیے،

اس موقع پر شرکا نے مقالہ پیش کرنے والوں کی زبردست پزیرائی کی۔ اپنے صدارتی خطبہ میں شمیم حنفی نے کہا کہ غالب ایسے شاعر ہیں جنہیں عالمگیر سطح پر قبول کیا گیا، ہم مشرق
مغرب کو دیکھتے ہوئے بہت سی باتوں کو درگزر کردیتے ہیں،ہندستان میں انکے پائے کا کوئی شاعر نہیں ہے غالب میری زندگی کا بہت بڑا سہارا تھے شمیم حنفی نے کہا کہ غالب کی شاعری میں مذہب اور عقیدہ یا کوئی اور دیوار بن کر کھڑی نہیں ہوسکی،

غالب ایسے شاعر تھے جنہوں نے بہت دکھ اٹھائے۔ڈاکٹر نعمان الحق نے غالب پر اپنا مقالہ یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں پیش کیا اور کہا کہ غالب ایک عظیم شاعر ہیں جو ہمارے ہاں اور کوئی بھی نہیں ہے،غالب کا محبوب،جو ایک استعارہ ہے اس لئے وہ اس کو کبھی دیکھ نہیں پائے غالب نے آسمان اور زمین کی جو بات کی ہے وہ بھی بہت کمال ہے انہوں نے کہا کہ غالب کے ہاں کائنات کی تخلیق دیگر ہے جس میں رشتہ ہے اور دیگر زندگی کے معاملات ہیں،ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنا مقالہ حیات اور تصور حیات پیش کیا اور کہا کہ اگر غالب نہ ہوتے تو ہم انیسویں صدی میں دستاویز سے محروم ہوتے ایک شخص کے رد عمل کا بھی پتہ چلتا ہے جو دہیات کے ٹیڑھے راستوں سے سیدھے راستے پر آنکلا،نسلی اعتبار سے غالب کا تعلق تک کے قبیلے ایبک سے تھا،غالب ایک ایسے شاعر ہیں جو زندگی کے تصورات پیش کرتے ہیں،غالب کے ہاں انسان کے ساتھ تعلق اٹوٹ ہے،

غالب کی شاعری میں زمانے کی مشکلوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔اس میں سینکڑوں قباحتیں ہیں،ہیرو جی کتا? کا نے کہا کہ ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ غالب اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں کس طرح سوچتا ہے۔دیوان غالب کی غزلوں اور نظموں کو دیکھ کرنتیجہ نکالا ہے اور اسے تاریخی طور پر مرتب کرنے کی کوشش کی تھی،غالب نے تیس سال کی عمر سے پہلے بہت کچھ لکھا تیس سال تک دو ہزار سات سو چھیالیس اشعار لکھے اور تیس سال کے بعد انہوں نے پہلے کے مقابلے میں کم لکھا،

بعد ازاں نامور صداکار ضیا محی الدین نے دیوان غالب سے مرزا اسدا اللہ خان غالب کی نظمیں پڑھیں اس موقع پر ضیا محی الدین کو سننے کے لئے شرکاء کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے انہیں خوب سراہا۔