کراچی شپ یارڈ ترقی کی شاہراہ پر گامزن

316

 

۔7اکتوبر کو کراچی شپ یارڈ کے سابق مزدور رہنما احمد خان کا کراچی شپ یارڈ کی تباہی کے دہانے پر مضمون شائع ہوا۔ ذیل میں کراچی شپ یارڈ انتظامیہ کا موقف پیش کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے بحری حدود کے حامل ہونے کے باعث شپنگ کمپنی اور کراچی شپ یارڈ کی تعمیر بانی پاکستان قائد اعظم کی ایک دیرینہ خواہش تھی۔ لہٰذا شپنگ کمپنی اور کراچی شپ یارڈ کی تعمیر کے اقدامات کیے گئے۔ شپنگ کمپنی قائد اعظم کی زندگی میں ہی قائم ہو گئی تھی جبکہ کراچی شپ یارڈ کی تعمیر کی منظوری پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی صدارت میں ہونے والی ایک کیبنٹ میٹنگ میں ہوئی۔ ادارے کی تعمیر کے بنیادی مقاصد میں اس کی دفاعی اہمیت بھی پیش نظر تھی۔ اسکی بنیاد حکومت پاکستان اور جرمنی کے درمیان ایک منصوبہ کے تحت 1952ء میں رکھی گئی۔ پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت 1957ء میں ادارے نے کام کا آغاز کیا۔ یہ پبلک لمیٹڈ ادارہ ہے جس کے تمام حصص وزارت دفاعی پیداوار اور پاک بحریہ کے پاس ہیں۔ یہ خود انحصاری کے تحت چلنے وال ادارہ ہے پاک بحریہ کے سربراہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر زکے چیئرمین ہیں اور یہ کمپنیز ایکٹ 2017ء کے تحت کام کرتا ہے۔
ویسٹ وہارف کراچی میں 71ایکڑ رقبہ پر پھیلے اس ادارے میں جہاز سازی کے لیے 3عدد شپ بلڈنگ برتھیں، جہازوں کی مرمت کے لیے 2 گریونگ ڈاکس جبکہ بھاری انجینئرنگ کے کاموں کے لیے جنرل انجینئرنگ کا شعبہ موجود ہے۔ ان شعبہ جات کی معاونت کے لیے متعدد ورک شاپس اور دیگر تکنیکی سہولیات جیسا کہ گرڈ بلاسٹنگ، پائپ فٹنگ ، اسٹیل فیبریکیشن ، کار پینٹری ، جدید پینٹ شاپ وغیرہ موجود ہیں۔
کراچی شپ یارڈ 26000 ٹن تک کے ہر نوعیت کے جہاز جن میں ٹگز، آئل ٹینکر، کنٹینر ویسل، کارگو جہاز ، ڈریجر، پائلٹ بوٹس ، بلک کیریئرجبکہ دفاعی نوعیت کے جہازوں میں پیٹرول بوٹس، میزائل بردار جہاز ، آبدوز، گن بوٹس وغیرہ اور جدید آلات اور ہتھیاروں سے لیس فریگیٹ جیسے جہاز بھی شامل ہیں۔ کراچی شپ یارڈ کو میزائل بوٹس اور پیٹرول بوٹس کی تعمیر میں خود انحصاری بھی حاصل ہے۔ شپ یارڈ نے 2013ء میں فریگیٹ اور 2017ء می0 1700 ٹن کا فلیٹ ٹینکر عالمی معیار کے مطابق بر وقت تعمیر کرکے پاک بحریہ کے حوالے کیے ہیں۔
کراچی شپ یارڈ اب تک تقریبا 450کے ملکی اور بیرون ممالک کے لیے مختلف اقسا م کے جہاز تعمیر کر چکا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں کراچی شپ یارڈ نے اپنی فنی اور جہاز سازی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور یہ دنیا کے کسی بھی مساوی شپ یارڈ سے مسابقت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے متعدد انجینئرز ٹیکنیشن اور کارکنان نے چین میں جدید جہازوں کی تعمیر کی تربیت بھی حاصل کر رکھی ہے۔
حالیہ سالوں میں پایہ تکمیل سے پہنچنے والے جہاز سازی کے قابل ذکر منصوبے درج ذیل ہیں۔
-1پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے لیے 600 ٹن کا میری ٹائم پیٹرول ویسل ۔
-2پاک بحریہ کیلئے میزائل بردار جہاز 3 عدد ۔
-3پاک بحریہ کیلئے لینڈنگ کرافٹ میکانئزڈ
-4پاک بحریہ کیلئے چین کے تعا ون سے جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس F 22P فریگیٹ
-5پاک بحریہ کے لیے 7000۱ ٹن فلیٹ ٹینکر
-6پاک بحریہ کے لیے 2 عدد32 ٹن بولارڈ پل ٹگ
-7پاک بحریہ کے لیے 2 عدد 12 ٹن بولارڈ پل ٹگ ۔
-8اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے پاکستان کسٹمز کے لیے دو عدد ایف آر پی پیٹرول بوٹس
کراچی شپ یارڈ میں مندرجہ ذیل منصوبے اپنی پوری رفتار سے تکمیل کے مراحل میں ہیں :
-1چین کے تعاون سے پاک بحریہ کے لیے 4 عدد جدید ترین آبدوزیں۔
-2پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے لیے 1500 ٹن وزنی میری ٹائم پیٹرول ویسل جو کہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
-3پاک بحریہ کے لیے میزائل بردار جہاز نمبر 4 ۔ پاکستان کا پہلا ملکی ساختہ جدید جنگی جہاز
-5پاک بحریہ کے لیے 2 عدد12 ٹن بولارڈ پل پُشرٹگ ، جن پر حال ہی میں تعمیراتی کام کا آغاز ہو ا ہے۔
جہاز سازی کے منصوبے جن کے معاہدوں پر حالیہ دنوں میں دستخط ہوئے ہیں
-1پاک بحریہ کے لیے ترکی کے تعاون سے 2 عدد ملجم کلاس کارویٹس
-2پاک بحریہ کے لیے جی آ ر پی بوٹس
کراچی شپ یارڈ کے دیگر شعبہ جات میں جنرل انجینئرنگ نے حالیہ سالوں میں پاکستان ریلوے کے لیے متعدد اوور ہیڈ کرینیں، پی آئی اے کے لیے پیسنجر بورڈنگ برج کی تعمیر اور ملکی شوگر انڈسٹری کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں بلکہ اپنی مصنوعات بیرون ممالک میں برآمد کرکے قیمتی زر مبادلہ بھی حاصل کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس شعبے نے سندھ اریگیشن ڈپارٹمنٹ سے سکھر بیراج کے 6 عدد گیٹس کی تعمیر و تبدیلی کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ جہازوں کر مرمت کے شعبہ بھی ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے اور اوسطا سالانہ 25 عدد ملکی اور بیرون ملک سے آئے جہازوں کی مرمت کا کام کیا جاتا ہے۔ کراچی شپ یارڈ میں شپ لفٹ اینڈ ٹراسفر سسٹم کی تنصیب کا عظیم منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس کے تحت تعمیر اور مرمت کے لیے 8000 ٹن تک وزنی جہازوں کو سمندر کی سطح سے اٹھا کر خشکی پر بنے پارکنگ اسٹیشن تک لایا جا سکے گا اور بیک وقت 13 جہازوں کی مرمت اور بحالی ممکن ہو سکے گی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی جہازوں کی مرمت کا شعبہ جس کا تجارتی حجم فی الوقت ۱ ارب سے زائد ہے ، دگنا ہونے کی توقع ہے۔