قرضہ دینے والوں کے مطالبات نظر انداز نہیں کئے جا سکتے،میاں زاہد حسین

671
قرضہ دینے والوں کے مطالبات نظر انداز نہیں کئے جا سکتے،میاں زاہد حسین

کراچی:نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اہم فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ میں اضطراب بڑھ رہا ہے جو ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ ہے۔

حکومت اہم معاملات پر واضح موقف اختیار کرتے ہوئے ملکی مفاد کے مطابق فیصلے کرے۔ تیل اور بجلی کی قیمت میں اضافہ نہ کیا گیا تو آئی ایم ایف اور کوئی دوست ملک قرضہ نہیں دے گا جس سے معیشت مذید کمزور ہو تی جائے گی اور ملک دیوالیہ ہو جائے گا ۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سابق حکومت کی اقتصادی بارودی سرنگوں سے نمٹنے کے لئے غیر مقبول فیصلے کرنا ہونگے کیونکہ یہ ملکی بقاء کا معاملہ ہے۔

کئی دہائیوں سے کئے جانے والے مقبول فیصلوں اور آمدنی سے زیادہ اخراجات کی عادت نے ملک کو غلام بنا دیا ہے اور اب ہر اہم مسئلے میں غیر ملکی ڈکٹیشن کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

اب پاکستان کو دفاعی اخراجات کے لئے بھی قرضے لینا پڑ رہے ہیں جو شرمناک ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ1970 میں غیر ملکی قرضوں کا حجم 3.5 ارب ڈالر تھا جو 2004میں 33 ارب ڈالر تک جا پہنچا اوراب غیر ذمہ دارانہ اخراجات کی وجہ سے 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے ۔

اب نئے قرضے لئے بغیر پرانے قرضوں کی ادائیگی ناممکن ہو گئی ہے ۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ متعدد حکومتوں نے اپنے فائدے اورسیاسی شہرت کے لئے بھاری قرضے لئے جس سے ملک معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہو گیا ہے اور معیشت میں اندرونی اور بیرونی شاکس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی ہے۔

ان حالات میں صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کے لئے حکومت کے پاس سرمایہ کم ہوتا جا رہا ہے جس سے عوام کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ دنیا کے کئی ممالک نے قرضے لے کر سرمایہ کاری کی جس سے انکی ترقی کی راہ ہموار ہوئی مگر پاکستان نے زیادہ تر قرضے کرنٹ اکائونٹ کے خسارے سے نمٹنے کے لئے حاصل کئے مگر کبھی بھی اس خسارے کو کم یا ختم کرنے کے لئے درآمدات پر قابو کرنے کی حقیقی کوشش نہیں کی گئی۔

سرد جنگ اورافغان جنگ ختم ہو چکی ہیں جبکہ اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف امریکی دلچسپی بھی بہت کم رہ گئی ہے اس لئے اب پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو کبھی تھی مگر ہماری حکومتوں اور عوام نے چادر کے مطابق پائوں پھیلانا نہیں سیکھاجس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

پاکستانی معیشت کو سنبھالنا امریکہ یا دوست ممالک کی نہیں ہماری ذمہ داری ہے جس سے مفر ناممکن ہے۔