…!شرم تم کو مگر نہیں آتی

375

عبوری حکومت افغانستان کے ناداں غرا اور دھمکا رہے ہیں اُس مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جس نے روسی جارحیت کے مرحلہ میں ہر طریقہ سے مدد کی، اسلام کے نام لیوا ایک کمیونسٹ ریاست روس کے خلاف جہاد کے لیے پاک سرزمین سے سربکف ہو کر افغانستان پہنچے اور انہوں نے نہ صرف روس کے دانت کھٹے کیے بلکہ بہادری کی مثالیں قائم کیں اور لہو کا نذرانہ دے کر دھرتی کو لالہ زار کیا اور اس کے ساتھ ہی 40 لاکھ اُن افغان مہاجرین کو اپنے لقموں میں شریک کیا جو ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور ریاست مدینہ کے انصار کی مثال قائم کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان نے پڑوسی کے حق کی ادائیگی جو اسلام سکھاتا ہے اپنے جانی و مالی قربانیوں سے نبھائی تو روس کی پسپائی کا سامان ہوا تو ایک فلسطینی رہنما نے پاکستان کے کردار کو یوں خراج تحسین پیش کیا کہ کاش ہمارے فلسطین کے پڑوس میں پاکستان ہوتا تو ہم اسرائیل کے پرخچے اڑا دیتے۔ اس تبصرہ میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں اور اب جبکہ اسرائیل نے غزہ کی بستی میں معصوم بچوں اور خواتین پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ فلسطین کے پڑوسی ممالک ان مظلوموں کی مدد کے لیے راہداری دینے، ان کو اپنی سرزمین پر بسانے کے لیے تیار نہیں بلکہ اسرائیل کے مددگار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے تو افغان مہاجرین کے ساتھ وہ رویہ بھی نہیں اپنایا جو ایران نے ان کے ساتھ اختیار کیا تھا کہ ان کو کیمپوں میں رکھا اور افغانیوں کو ایرانیوں سے گھلنے ملنے نہیں دیا۔ پاکستان میں آنے والے افغان مہاجرین تو مسلم چشم پوش کی بدولت فوج پاکستان میں بھرتی ہو کر اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئے۔ جو بعدازاں افغان جارحیت اور ان کے رویے کی بدولت فارغ کیا گیا۔

الحمدللہ راقم کو بھی جہاد افغانستان کا جا کر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ یہ جہاد افغانیوں ہی نے نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کے نوجوانوں نے مل کر روس کے خلاف لڑا تھا اور پاکستان کا کردار ہر لحاظ سے بنیادی رہا۔ یوں ہی امریکا اور اس کے حواریوں کی نائن الیون کے بعد افغانستان پر جارحیت میں پاکستان نے جس ڈپلومیسی سے کام لیا، امریکی تجزیہ نگار بھی کہہ اٹھے کہ زبان ہمارے ساتھ ہے تو قلب افغان مجاہدین کے ساتھ ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ضیا الحق کے طیارے کا سانحہ اور اس میں ان کے ساتھ رفقا کی شہادت ہوئی وہ تجربہ کار ٹیم تھی جس نے روس جیسی سپرپاور کے پرخچے اڑانے کی حکمت عملی پر عملاً کام کیا اس کی ایک وجہ افغان جہاد میں ان کا شاندار کردار تھا۔ روس کی واپسی کے بعد یہ غیر تحریر شدہ معاہدہ تھا کہ افغان مجاہدین روسی جارحیت سے اپنے ملک کے نجات بعد مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے میں وہی کردار ادا کریں گے جو پاکستان کے مجاہدوں نے روسی استبداد کے مقابلے میں کیا تھا۔ مجھے بھی یاد ہے کہ افغانستان کی تورا بورہ پہاڑوں میں بنائی ہوئی غاروں میں ایک کمانڈر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم روس سے نمٹنے کے بعد بھارت سے کشمیر کو آزاد کرائیں گے مگر ایسا ہونا تو درکنار رہا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔ وعدہ جس کی روز قیامت پوچھ ہوگی یہ بھلا بیٹھے تو کیا ہوا مگر حساب دینا ہوگا۔

پاکستانی طالبان تو نصیر اللہ بابر اور امریکی سفیر نے تیار کرکے افغانستان میں اقتداری خانہ جنگی کو روکنے کے لیے بجھوائے تھے مگر یہ کیا پتا تھا کہ یہ ہوگا خود کردہ علاج نیست اب اس کے تلخ ثمرات خودکش حملوں کی صورت میں پاکستان اٹھا رہا ہے۔ امریکا جاتے جاتے ہتھیار ایک منصوبہ کے تحت چھوڑ گیا اور یوں اس نے پاکستان کو ڈبل گیم کا سزاوار بنادیا۔ ان ہتھیاروں کے بل بوتے پر عبوری افغان حکومت جو چے پدی چے پدی کا شوربہ پاکستان کو خودکش حملوں سے ڈرا رہی اور ذبیح اللہ میڈیا پر وہ کچھ لاف زنی کررہے جو وہ امریکی جارحیت پر بھی نہ کیا کرتے تھے۔ شریعت تو احسان کا بدلہ احسان قرار دیتی ہے، بھارت جو اسلام دشمن ہے وہ انہیں محبوب نظر آتا ہے، پاکستان جو عالمی استعمار کی آنکھ کا کانٹا ہے، ایٹمی صلاحیت سے اس کا ناتا ہے اس کو سہ طرفہ گھیر کر اپنے ڈھب پر لانے کے گیم میں تخریب کاری کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا دراصل کفر کی مدد کرنا ہی ہے۔ یہ کفر کا پرانا ہتھکنڈا ہے،

جب شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے اور کامیابیاں حاصل کرتے ان ہی علاقوں میں جہاں ان دنوں افغانستان کے فسادی تخریب کاری کرکے بھارت اور کفر کی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں پہنچے تو قبائلی سرداروں کی غداری کی بدولت وہ گھیرے میں آگئے تو اس مرحلے میں چند غدار سردار سید احمد شہید کے پاس وضاحتیں کرنے آئے تو شاہ صاحب نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ ’’مجھے تم سے ایسی نفرت ہے جیسی انسان کو اپنی قے سے ہوتی ہے، کیا افغانی جن کو مہمان نوازی میں پیٹ میں بسایا تھا اب قے بن کر وہی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جو غداران قبائل نے شاہ صاحب کے ساتھ کیا تھا تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری بلی ہمیں میائوں نہ کرے پاکستان اسی راستہ بھارت کو جو تجارت کا ہے کاٹ دے تو کھایا پیا نکل کر رہ جائے گا۔ اپنے محسنوں کے ساتھ یہ کردار اس پر دو لفظی تبصرہ یہ ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔