پاک افغان کشیدگی! ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

619

اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل، امریکا، یورپی یونین کی جیت کے لیے دنیا کے کسی دو بڑے مضبوط اسلامی ممالک کے درمیان شدید جنگ امریکا اور اسرائیل کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ مسلمان ممالک کا اتحاد اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی بدترین شکست کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اسی صورتحال سے بچنے کے لیے امریکا، اسرائیل اور بھارت یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی دو اسلامی ممالک کے درمیان کھمسان کی جنگ ہو جائے۔ اسی لیے پاکستان، ایران اور اب پاک افغان کشیدگی نے جنگ کی صورتحال بنا دی ہے۔ لیکن پاک افغان کشیدگی کے دوران دونوں ہی اسلامی ممالک کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ تعلقات اس قدر نہ بگڑ جائیں کہ دونوں کے مشترکہ دشمن کو خوب خوب فائدہ ہوجائے۔ دونوں ممالک کے تعلقات بہت نازک اور ضروری ہیں دونوں کو خیال رکھنا ہو گا کہ ’’ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘‘ اس لیے کہ دونوں ہی کی امریکا خم ٹھوکنے میں مصروف ہے۔ امریکی محکہ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ انسداد دہشت گردی پر پاکستان سے مسلسل رابطے میں ہیں، پاکستان امریکا کا ایک اہم شراکت دار ہے۔ یہ بات پوری دنیا کے علم میں ہے کہ یہ اہم شراکت دار ی 2001ء دونوں ممالک کے لیے خطرناک ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جس طرح کی کشیدگی آج نظر آرہی ہے ایسی صورتحال توکبھی ماضی قریب میں ’’حامد کرزئی‘‘ کے دور میں بھی نظر نہیں آئی تھی۔ ہاں ’’حامد کرزئی‘‘ سے قبل سردار داؤد، نور محمد تراکئی، بابرک کارمل اور حفیظ اللہ امین کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات ٹھیک نہ ہونے وجہ یو ایس ایس آر (روس) کی افغانستان میں براہ راست مداخلت تھی۔ روس گرم سمندروں تک پہنچنے میں پاکستان کو خطے میں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سابق طالبان دور جس کے ’’سربراہ ملا عمر‘‘ تھے کے دور میں بہت شاندار تھے۔ لیکن 2020ء میں افغانستان میں حکومت پر طالبان کو اقتدار ملنے کے بعد ہی سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا پودا امریکا نے لگا دیا تھا اور رفتہ رفتہ اب بھارت بھی اس پودے کو پروان چڑھانے کے لیے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کی وجہ سے افغان حکومت کے دلوں میں پاکستان سے نفرت عروج پر پہنچ چکی ہے۔

جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں کہ افغانستان کی جانب سے ستمبر 2020ء میں تعلقات میں خرابی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ لیکن دو دن قبل کشیدگی جنگ میں تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ افغان سرحد کے قریب پاکستانی فوجی پوسٹ پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں تیرہ فوجیوں کی شہادتیں ہوئیں۔ اس سلسلے میں پاکستان حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹی ٹی پی کی طرف سے ایسے بہت سے حملے افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے کیے جاتے ہیں اور یہ بھی ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس بارے میں افغان حکومت کو بھی فوری توجہ دینا چاہیے تھی لیکن وہاں سے اس طرح کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ انہوں پاکستان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے۔

پاکستانی فوج کے مطابق افغانستان کے ساتھ ملکی سرحد کے قریب ضلع شمالی وزیرستان میں ایک ملٹری پوسٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں سات فوجی اہلکار شہید اور چھے حملہ آور مارے گئے۔ حملہ آوروں میں خود کش بمبار بھی شامل تھے۔ پشاور سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق عسکریت پسندوں نے یہ حملہ ہفتہ 16 مارچ کو علی الصباح شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر کیا اور اس دوران بارود سے لدی ایک گاڑی اس ملٹری پوسٹ سے ٹکرا دی گئی۔ اس کے علاوہ اس ابتدائی حملے کے فوری بعد حملہ آوروں نے، جن کی تعداد چھے بتائی گئی ہے، خود کش بم دھماکے بھی کیے۔ اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق بارود سے لدی گاڑی کے چوکی سے ٹکرائے جانے کے نتیجے میں پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد جب عسکریت پسندوں نے خود کش دھماکے کیے اور چند حملہ آوروں کے ساتھ سیکورٹی اہلکاروں کا فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ، تو اس میں بھی دو فوجی مارے گئے۔

جیسا کہ کالم کے شروع میں لکھا تھا کہ امریکا اور اس کے بعد بھارت پاکستان افغان تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس نازک موقع پر امریکا نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغانستان دہشت گردی کی پناہ گاہ نہ بنے‘‘، وائٹ ہاؤس کا شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کرین جین پیئرنے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرد جھڑپوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر پاکستان سے تحمل کی اپیل کی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی پر پاکستان سے مسلسل رابطے میں ہیں، فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اختلافات کو دور کریں۔ البتہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننا چاہیے۔

امریکا نے پاکستان اور افغانستان دونوں سے کہا ہے کہ وہ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ امریکی صدر دفتر وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم ان خبروں سے آگاہ ہیں کہ پاکستان نے ہفتہ کے روز اپنی ایک فوجی چوکی پر حملے کے جواب میں افغانستان میں فضائی حملے کیے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کرین جین پیئر کا پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گرد حملے افغان سرزمین سے نہ ہوں‘۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے‘۔ دونوں ممالک کے درمیان اس وقت سے کشیدگی بہت زیادہ ہو گئی جب افغانستان میں پاکستان سے واپس پہنچنے والے افغانیوں سے وہاں کی حکومت ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئی تھی۔

افغان حکومت کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستان میں لگ بھگ 17 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور ان کے پاس پاکستان میں رہنے کی دستاویزات نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے تارکین وطن کے ادارے کے مطابق پاکستان میں مختلف اداروں سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کی تعداد لگ بھگ 31 لاکھ تک تھی۔ پاکستان میں تشدد کے واقعات اور جرائم کی شرح میں اضافے، ڈالرز کی اسمگلنگ اور دیگر واقعات میں کچھ افغان باشندوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

پاکستان میں امن کے قیام کے لیے ایک فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجا جائے گا اور اس پر بہت حد تک عمل بھی ہوا جس پر افغان حکومت پاکستان سے کچھ ناراض بھی ہوئی تھی لیکن یہ بات دو ٹوک ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشید گی سے دونوں ممالک کو بھاری نقصان کا خدشہ ہے۔