آٹھ راز

424

آخری حصہ
اہل غزہ کے عزم بالجزم کا چھٹاراز ان کی ’’رضا‘‘ میں چھپا ہوا ہے۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی رضا پر ہر حال میں راضی۔ تباہ حال عمارتوں کے ملبے کے آگے ایک نوجوان اضطراب اور پریشانی سے کوسوں دور مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’الحمد للہ، اللہ نے ایسا ہی لکھا تھا۔ میں خوش ہوں کہ میں اور میرا خاندان محفوظ رہے۔ خدا کی قسم، یہ کیا کوئی کم نعمت ہے‘‘۔ اسپتال میں ایک مریض بستر پر زخمی حالت میں لیٹا ہے۔ اس کے افراد خانہ اس کے گرد جمع ہیں۔ ایک نوجوان انہیں نصیحت کررہا ہے ’’کہو الحمد للہ، اونچی آواز میں کہو الحمد للہ‘‘۔ بارش ہوئی تو پانی میں بھیگتا ہوا، ہاتھوں سے کوزہ بنا کر پانی پیتا ہوا ایک چار پانچ برس کا لڑکا مسکراتے ہوئے کہہ رہا ہے ’’دوستو! اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہماری پیاس بجھانے کے لیے بارش کا پانی بھیج دیا ہے‘‘۔ کھنڈر عمارتوں کے پس منظر میں ایک خاتون شکر گزار ہیں اور کہہ رہی ہیں ’’یہ معجزہ ہے کہ الحمد للہ ہم باہر نکل آئے ہیں۔ خدا کی قسم یہ اللہ کا معجزہ ہے۔ ان کے پیچھے موجود ایک جوان خاتون کہہ رہی ہیں۔ الحمد للہ یاربّ العالمین‘‘ اسپتال میں بستر پر لیٹے اپنے زخموں سے چور بیٹے پر جھکی ایک خاتون اسے نصیحت کررہی ہیں ’’بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو الحمد للہ کہو، کہو لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ اللہ اکبر۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے‘‘، سیدھے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھاکر وہ خاتون بلند آواز میں کہہ رہی ہیں ’’اے اللہ، ہم تیری حمد بجا لاتے ہیں اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں‘‘۔
اہل غزہ اس حال میں اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں، اس حال میں سراپا شکر ہیں کہ ان کی جان محفوظ ہے اور نہ ان کا مال۔ ان کی اپنی جان کی حفاظت کی کوئی ضمانت ہے اور نہ ان کے اہل وعیال کی۔ اوپر سے اسرائیلی طیارے پر ان پر آتش وآہن کی بارش کررہے ہیں، زمین پر اسرائیلی افواج انہیں نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان کی رہائش گاہیں، عمارتیں، محلے اور علاقے اسرائیلی حملوں میں برباد ہوکر کھنڈر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں سے لے کر اسکول کی عمارتوں تک ان کی کوئی پناہ گاہ اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں۔ ان کے چاروں طرف زخمی ہی زخمی ہیں اور ان کی دردناک چیخیں، اسپتالوں میں علاج کی سہولتیں تو ایک طرف خود اسپتال موجود نہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ان کے گودوں میں تڑپ رہے ہیں، ان کے ہاتھوں میں دم توڑ رہے ہیں، اسپتالوں کے بستر، کمرے اور راہداریاں ان کے بچوں اور عزیزوں کی لاشوں سے پٹی ہوئی ہیں۔ ان کی کھانے پینے کی اشیا اور پانی ختم ہو چکا ہے، وہ کئی کئی دن سے بھوکے پیاسے ہیں اور نہیں معلوم کب تک یہ بھوک اور پیاس ان کے گرد ڈیرہ ڈالے رکھے۔ اس حال میں بھی ان کے قلوب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا سے روشن اور مغلوب ہیں، ان کی زبانیں یوں اللہ کے شکر سے گونج رہی ہیں جیسے نہ جانے وہ کن دسترخوانوں پر سجی کون کون سی نعمتیں کھا رہے ہیں، ان کے جسم وجان کن مضبوط قلعوں میں محفوظ ہیں۔ ان کا عزم اور اطمینان دیکھیے تو لگتا ہے کہ انہیں کامل یقین ہے کہ ان کا حال بھی محفوظ ہے اور مستقبل بھی۔ ان کا آج بھی روشن ہے اور کل بھی۔ دنیا اپنے تمام خزانوں اور نعمتوں کے ساتھ ان کے دروازوں پر دستک رہی ہے حالانکہ ان میں سے کچھ بھی انہیں دستیاب نہیں لیکن وہ اللہ کی رضا میں راضی ہیں اور سراپا تسلیم ورضا ہیں، سراپا شکر ہیں۔ یقینا اہل غزہ نے اللہ کی رضا میں راضی رہنے کاراز پا لیا ہے۔ وہ کامیاب ہیں۔ وہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی رضا میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ سلام ہو ان پر۔
اہل غزہ کی کامیابی کا ساتواں راز ’’اللہ تعالیٰ سے ان کی محبت‘‘ہے۔ اللہ سے محبت اور اللہ کی مخلوق سے محبت۔ اس حال میں بھی وہ افسردہ اور دلگیر نہیں ہیں حواس باختہ نہیں ہیں۔ وہ زخمی بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے ہیں، ان سے پیار کر رہے ہیں، انہیں مسکرا کر دیکھ رہے ہیں اس بات سے قطع نظر وہ زخمی کون ہے؟ وہ کس کی اولاد ہے؟ اسرائیلی درندوں کی وحشتوں اور درندگیوں کا شکار عمارتی ملبے تلے دبی ہوئی بلی اور کتے کے بچوں کو بھی اسی تندہی اور جدوجہد سے پھنسے ہوئے ملبے اور ٹوٹی عمارتوں سے نکال رہے ہیں جیسے انسانی بچوں کو۔ ایک خاتون جن کے بچے اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں اسپتال میں ان کی لاشوں پر کھڑے ان کی آنکھوں میں کوئی آنسو ہے اور نہ زبان پر کوئی گلہ اور شکوہ۔ انہیں اگر کسی بات کی فکر ہے تو وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ’’اے اللہ تو ہم سے راضی ہوجا ہم تیرا شکر ادا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ فلسطینیوں کے روایتی عمامے سے چہرہ سجائے ایک ادھیڑ عمر باشرع فلسطینی اس حال میں بھی تبلیغ دین کے فریضے سے غافل نہیں ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے صبر، استقامت اور خلق خدا سے پیار دین اسلام نے سکھایا ہے۔ میں نے یہ سب کچھ نبی اکرمؐ اور دوسرے انبیاؑ کے اسوہ سے سیکھا ہے‘‘۔
اہل غزہ کی کامیابی کا آٹھواں راز ’’آپ‘‘ ہیں۔ جی ہاں اے معزز قاری آپ ہیں۔ اوپر بیان کردہ ان باتوں کو آگے پھیلائیے اور ان کی زندگی کے ان رازوں ’’اوپن سیکرٹس‘‘ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیے۔ ان رازوں پر عمل شعار کیجیے۔ سچ جاننے کی کوشش کیجیے۔ اور مشکل میں گھرے اپنے بہن بھائیوں کے مددگار بنیے۔ خوشی یا غمی، زندگی کے کسی بھی لمحے میں اپنے فلسطینی بھائیوں کو مت بھولیے۔ تاریخ کے اس موڑ پر حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔ وہ اپنے ربّ کے سوا کسی کی مدد کے طالب نہیں۔ یہ آپ ہیں جنہیں اس مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دینا پل صراط پر توازن عطا کرے گا۔ گرنے سے بچائے گا۔ اس ابابیل کی مانند بنیے جو سمندر سے اپنی منی سی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ بھر بھر کر لارہی تھی اور سیدنا ابراہیمؑ کے لیے بھڑکائی ہوئی بے کنار آگ پر ٹپکا رہی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ پانی کا یہ معمولی قطرہ اس آگ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اس کا نام ابراہیم ؑ کے دوستوں کے رجسٹر میں درج کراسکتا ہے۔ اپنے روپے پیسے، بھاگ دوڑ، بات چیت یا سفارش، بہ ہر انداز، بہ ہر لمحہ ان کے مددگار بنیے۔ یہ مدد مالی بھی ہوسکتی ہے، امت کو ان کے کاز اور مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور جوڑنے کے لیے دو جملے بھی ہوسکتے ہیں اور ان کی مدد اور نصرت کے لیے کی جانے والی بھاگ دوڑ بھی، اپنے حکمرانوں کو اہل غزہ کی مدد کے لیے افواج بھیجنے کے لیے ایک نعرہ اور پیش کی گئی ایک اسرائیلی پراڈکٹ کا انکار بھی۔ اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے اسرائیلی تیار کردہ اشیاء اور پراڈکٹ کا انکار کرکے کم ازکم ان لوگوں میں شامل ہونے سے تو خود کو بچاسکتے ہیں جو اسرائیل کے دوست اور اہل غزہ کے دشمن ہیں۔
سمندر کی لہروں میں بہتی ہوئی لاکھوں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ایک مرتبہ ساحل پر آرہیں اور تڑپنے لگیں۔ کوئی صاحب ایک ایک مچھلی اٹھاتے اور پانی میں واپس پھینک دیتے۔ کسی شخص نے کہا ’’بھائی آپ کے اس طرح کرنے سے ان بے شمار مچھلیوں کو کیا فرق پڑے گا؟‘‘ اُس شخص نے ایک مچھلی کو ساحل پر سے اٹھایا، سمندر میں واپس پھینکا اور کہا ’’اِس مچھلی کو تو فرق پڑے گا‘‘۔ قدرت نے آپ کو انمول موقع عطا کیا ہے۔ اہل حق کا ساتھ دینے کا۔ اس موقع کو ضائع مت کیجیے۔ آپ کے اعمال اس ربّ کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے جو چھوٹے بڑے اعمال کی پیمائش نہیں کرتا اخلاص پر نظر رکھتا ہے۔ ممکن ہے دسترخوان پر ایکوافینا پانی کی ایک بوتل اپنے آگے سے ہٹا دینا، میک ڈونلڈ اور کے ایف سی جانے سے ایک مرتبہ خود کو، اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو روکنا ہی آپ کے لیے اہل حق کا ساتھی اور مددگار ہونے کی علامت اور اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی رضا کا باعث بن جائے۔ یاد رکھیے دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے۔ ایسی تمام پراڈکٹس اور کمپنیاں جو اسرائیل کی دوست ہیں اپنی پراڈکٹس کے منافع میں اسرائیل کو شریک کرتی ہیں۔ آپ ان کی ترقی میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں جب کہ آپ کو معلوم ہو کہ اس منافع سے خریدی گئی گولی اور بندوق کا نشانہ آپ کا کوئی فلسطینی مسلمان ہو سکتا ہے۔ یہ اہل فلسطین کی مدد کا سب سے معمولی درجہ ہے کیا آپ اس قابل بھی نہیں ہیں۔ وہ فلسطینی وہ اہل غزہ جو آپ کو زندگی کے اتنے عظیم رازوں سے آگاہ کررہے ہیں آپ کم ازکم اس درجے تو ان کی مدد کرسکتے ہیں۔