رشوت کا جہنم کدہ۔ صوبہ سندھ

354

برسوں قبل کی بات ہے، یہ سیاسی چال تھی یا حقیقت ربّ جانتا ہے۔ یہ تذکرہ عام ہوا خوب پروان چڑھا عوام الناس کو میڈیا نے بتایا کہ آصف علی زرداری ’’ٹین پرسنٹ‘‘ ہیں وہ دس فی صد محنتانہ لیتے ہیں اس کا شورو غوغا اس قدر ہوا کہ سرکار سندھ میں یہ نذرانہ سکہ رائج وقت قرار پایا چونکہ آصف زرداری صدر پاکستان بھی تھے اور صوبہ سندھ سے تعلق دار بھی سو اس سوچ کو پزیرائی ملی سو یوں ان کے صوبہ سندھ میں رشوت اب ڈھکے چھپے نہیں کھلم کھلا منہ مانگی اور دی جانے لگی اور رشوت ستانی یعنی ’’خرچہ پانی‘‘ نے ایک کاروبار کا روپ دھار لیا، دلال کمال دکھانے اور گھر بیٹھے عوام الناس کا کام کراکر اپنی اور افسران کی تجوری بھرنے میں مصروف ہونے لگے، دلالوں کے ذریعے رشوت لینے سے افسران ہر قسم کے خطرے سے محفوظ مامون ہوتے رہے، بھلا دلال شکایت کرکے اپنے پیٹ پر کیوں لات مارنے لگا۔ سو رشوت ستانی اب آن لائن کاروبار سندھ میں تو کم از کم ہوگیا ہے۔ پریشانی تو جائز کام کرانے والوں کے لیے یوں ہے کہ وہ جائز طریقے سے اس اصول کو مدنظر رکھ کر اور سزا سے ڈر کر جو شریعت بتاتی ہے کہ خبردار ’’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘ کے سزاوار نہیں ہونا چاہتے، وہ کیا کریں؟ اس دور میں رشوت نہ دینے والے کو احمق، دیوانہ اور پتا نہیں کس دور کا شخص ہے سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ معاشرہ اس کاربد نے جہنم کدہ بنادیا ہے اب کوئی کرے تو کیا کرے۔ یہ اوپر سے آئی بلا ہے اور نیچے تک سرایت کر گئی ہے۔ مچھلی سر سے سڑتی اور دم تک بدبودار ہوگئی ہے اور ایک چین بن گئی ہے، رشوت کا حصہ بقدر جثہ سب کو ملتا ہے، قاصد سے لے کر سیکرٹری تک، وزیر مشیر سے وزیراعلیٰ تک بتایا جاتا ہے، سو یوں اس کار بد میں ملوث دلال سے لے کر سرکار تک خرکار بنا ہوا ہے نہ اس کو ڈر ہے، نہ خوف ہے۔ کوئی ذرا سا بھی اعتراض کرے تو وہ کہتا ہے کہ جس کو مرضی میں آئے شکایت لگادو، کام تو ہم سے ہوگا۔ چکر کاٹ کر جوتی گھسا بیٹھو گے کام پر اعتراض ختم نہ ہوں گے ایسا ہو بھی رہا ہے۔

ایک تعلقہ ناظم کے بقول اس نے آڈٹ کے لیے آنے والے افسر کے اعتراض در اعتراض کی ڈی سی کو شکایت کی تو ڈی سی صاحب نے مشورہ دیا کہ اس کا حصہ دے دو، ورنہ لمبے چکر میں پڑ جائو گے، سو میں نے یوں ہی کیا سب اعتراضات کافور ہوگئے۔ یہ کوئی انکشاف نہیں سب کو خبر ہے اب تو کمائی والی پوسٹ بکتی ہے۔ قیمت ٹائم فریم طے ہوتا ہے اور اس کو لوٹ کا پرمٹ دے دیا جاتا ہے کمائو کھائو اور ماہانہ طے شدہ رقم بھی ادا کرتے رہو۔ پوسٹنگ کی بھاری وصولی کے بعد ماہانہ کی بدعت اس پی پی پی حکمرانی روایت ہے۔ جو کہتے ہیں کہ بادشاہ کا چلن ہی رعایا کا چلن ہوجاتا ہے، سو لوٹ کا یہ چلن اب ہر سو ہے، مارکیٹ میں تاجر ذخیرہ اندوزی رشوت کی بنیاد پر کرتا ہے اور پھر سامان قلت کرکے خوب لوٹتا ہے، تو چندہ کا دھندہ بھی وہ جبہ و قبہ والے فراڈی علمائِ سو خوب کرتے ہیں جو پھر حج و عمرہ کے حوالے سے ہر لٹیرے کو بخشش کی نوید سنا کر خوش کرتا ہے بلکہ اب تو آسان کام بخشوانے کا دین کو مذاق بنانے کا یہ بھی ایجاد کر ڈالا کہ کچھ وقت ہمارے ساتھ لگا لو بس نجات کا سامان ہوگیا دھل کر پاک پوتڑ ہوگئے۔ صوبہ کے اکثر مدرسوں کی تعلیم سے نفرتوں کو بڑھانا ہی خدمت اسلام ہے اور دین کے نام پر خزانے کی جمع بندی ہے اور یوں معاشرہ اس کا خمیازہ ہر سو مال ہی سب کچھ ہے کا بھگت رہا ہے۔ کسی پہلو بھی چین نہیں ہے۔

باب الاسلام صوبہ سندھ میں بڑی شرم کی بات ہے کہ لوٹ کھسوٹ کو دنیاوی، اخروی نجات کا عقیدہ بنادیا گیا ہے۔ ہڈی توڑ کر کھائو اور سب کو کھلائو کی تھیوری تھمادی گئی۔ ایک سندھی اینکر میڈیا پر بتارہا تھا کہ سندھ کی وزارت اعلیٰ بھی 12 ارب روپے نزرانہ دے کر پہلے پہل ماضی میں کی گئی تھی اور ایک اقلیتی رکن جو وزیر بھی تھے انہوں نے یہ نذرانہ اسی پیٹی میں ڈالا جہاں سے اقتدار ملتا ہے۔ اور یہ اقلیتی وزیر بڑا طاقتور اس سودے سے ہوا۔ واللہ اعلم، کوئی مظلوم اللہ سے شکایت کر بیٹھا کہ سادہ دل بندے کدھر جائیں تو پھر سوچ لینا چاہیے کہ کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ متٰی نصراللہ (اللہ کی مدد کب آئے گی) کی بات دلوں سے زبانوں تک دبے دبے لہجہ میں آگئی ہے۔ نذرانہ نہیں ہے سود ہے پیراں حرم کا