مغرب کی اسلام دشمنی… ایک تاریخی تناظر

784

برصغیر کے شاعروں اور دانشوروں نے مغرب کو جس طرح سمجھا عالم اسلام کے کسی دوسرے خطے نے مغرب کو اس طرح سمجھ کر نہیں دکھایا۔ برصغیر کے شاعروں اور دانش وروں نے نہ صرف یہ کہ مغرب کو سمجھ کر دکھایا بلکہ اس کے خلاف ایک مزاحمتی فکر بھی پیدا کی۔ مثلاً اکبر الٰہ آبادی نے فرمایا ہے۔

مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے

اس شعر میں مذہب کا مطلب اسلام اور سائنس کا مفہوم مغرب ہے۔ مگر بدقسمتی سے برصغیر کے لوگوں کی عظیم اکثریت نے اکبر کو ’’مزاحیہ شاعر‘‘ کہہ کر نظر انداز کردیا اور ان کی فکر سے اس طرح استفادہ نہیں کیا جس طرح استفادے کا حق تھا۔ اقبال نے مسلمانوں میں مغرب کی مزاحمت پیدا کرنے کے لیے فرمایا:

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

لیکن برصغیر کے لوگوں نے اقبال کی تعریف تو بہت کی مگر ان سے سیکھا بہت کم۔ اقبال کے بعد مولانا مودودی برصغیر کے افق پر نمودار ہوئے۔ انہوں نے مغرب کو چار ہولناک ناموں سے پکارا۔ یعنی انہوں نے کہا مغرب ’’باطل‘‘ ہے۔ ’’جاہلیت خالصہ‘‘ ہے۔ ’’تخم ِ خبیث‘‘ ہے۔ ’’شجر ِ خبیث‘‘ ہے۔ مگر برصغیر کے مرکزی عوامی دھارے نے مولانا کو مولانا ہی ماننے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ مولانا نے مغرب کی جو تنقید پیدا کی اس کا اثر اب جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں تک پر نہیں ہے۔ محمد حسن عسکری نے اپنی کتاب ’’جدیدیت‘‘ میں مغربی فکر کی بھد اڑا کر رکھ دی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مغرب کو سو فی صد مسترد کردیا مگر عسکری صاحب کی اس کتاب کو اب تک پانچ ہزار لوگوں نے بھی شاید ہی پڑھا ہو۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی اسلام دشمنی کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں مغرب سے زیادہ سے زیادہ سیاسی شکایت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو حل نہیں ہونے دیتا۔ ہمارا خیال ہے کہ مغرب مسلمان دشمنی میں بھارت اور اسرائیل کی سرپرستی کرتا ہے۔ یہ تجزیہ اپنی جگہ درست ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغرب اپنی اصل میں اسلام دشمن ہے۔ رسول دشمن ہے۔ قرآن دشمن ہے۔ اسے اسلامی تہذیب کی علامتوں سے نفرت ہے۔ اسے اسلام کا تصورِ خدا زہر لگتا ہے۔ اسے اسلام کے تاریخی تجربے سے گھن آتی ہے۔

مغرب کی اسلام دشمنی کی سب سے پہلی بڑی مثال صلیبی جنگیں ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت صلیبی جنگوں کی اصطلاح سے آگاہ ہی نہیں۔ جو مسلمان صلیبی جنگوں کی اصطلاح سے آگاہ ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ صلیبی جنگیں کب اور کیوں شروع ہوئیں؟ بدقسمتی سے صلیبی جنگیں کسی سیاسی رہنما یا جرنیل نے شروع نہیں کی تھیں بلکہ ان کے آغاز کا مرکز گیارہویں صدی کا پوپ اربن دوم تھا۔ پوپ اربن دوم نے 1095 میں کلیسا میں کھڑے ہو کر کہا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ پوپ اربن نے کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔ پوپ نے پوری عیسائی دنیا سے کہا کہ وہ ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف مقدس جنگ شروع کرے۔ پوپ اربن کی یہ بات صدابہ صحرا ثابت نہ ہوئی بلکہ یورپ نے اپنی سب سے بڑی روحانی شخصیت کی بات کو پوری سنجیدگی سے سنا اور اس پر لبیک کہا۔ چنانچہ 1099ء میں پورا یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال تک جاری رہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مغرب نے صلیبی جنگوں کے آغاز کے لیے مسلمانوں پر نہیں ان کے دین پر براہِ راست حملہ کیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ پوپ نے اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیتے ہوئے کوئی علمی یا عقلی دلیل پیش نہیں کی۔ مسلمان عیسائیوں کی طرح خدا کو مانتے تھے۔ رسالت کے پورے ادارے پر ان کا ایمان تھا۔ وہ عیسائیوں کی طرح آخرت کے قائل تھے۔ عیسائیوں کی طرح وہ فرشتوں اور جنات کے وجود کو تسلیم کرتے تھے۔ مگر پوپ کو یہ مماثلتیں نظر ہی نہیں آئیں۔ اسے نظر آیا تو وہ جو موجود ہی نہیں تھا۔ اگر مسلمان ہندوئوں کی طرح بت پرست ہوتے تب بھی پوپ مسلمانوں کے مذہب کی مذمت کرسکتا تھا مگر مسلمانوں نے تو کبھی بت پرستی کی طرف دیکھا بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صلیبوں نے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور مسلمانوں کا اس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور ان میں گھوڑے چلانا دشوار ہوگیا۔

مغربی اقوام 19 ویں صدی میں ایک بار پھر اپنے جغرافیے سے نکلیں اور اس بار وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ فرق یہ تھا کہ کہیں انگریزوں کا قبضہ تھا، کہیں فرانسیسیوں کا تسلط تھا، کہیں جرمنوں کا غلبہ تھا، کہیں پرتگالی اور اطالوی حاکم تھا۔ مغربی اقوام کے اس غلبے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی ہر چیز بدل کر رہ گئی۔ مسلمانوں کے علوم و فنون بدل گئے۔ مسلمان اپنے علوم و فنون کے بجائے مغربی علوم و فنون پڑھنے لگے۔ مسلمانوں کی سیاست پہلے اسلام مرکز تھی مگر مغربی اقوام کے غلبے کے بعد سیکولرازم مرکز ہوگئی۔ مسلمانوں کا عدالتی نظام بدل گیا، مسلمانوں کی زبانیں تبدیل ہوگئیں، مسلمانوں کا لباس بدل گیا، یہاں تک کہ بیسویں اور اکیسویں صدی تک آتے آتے مسلمانوں کی تفریحات اور غذائیں بھی مغربی ہوگئی ہیں۔ تبدیلی کے اس ہولناک عمل کو اکبرالٰہ آبادی نے ابتدا ہی میں اپنی شاعری کا موضوع بنالیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا تھا۔

رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھّا قائم
رنگِ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا

ان کی بیوی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھّی ہے روٹی رات کی

نائن الیون کے بعد مغربی اقوام ایک بار پھر اسلام، اس کے تصورِ خدا اور اس کی تہذیب پر حملہ آور ہوئیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر بش نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ’’کروسیڈ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کا ترجمہ صلیبی جنگ کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ مسلمانوں نے اس پر اعتراض کیا تو وہائٹ ہائوس نے وضاحت کی کہ تقریر کرتے ہوئے صدر بش کی زبان پھسل گئی۔ یہ ایک صریح جھوٹ تھا اس لیے کہ صدر بش فی البدیہہ تقریر نہیں کررہے تھے وہ لکھی ہوئی تقریر کررہے تھے۔ جہاں تک زبان کے پھسلنے کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس پر سگمنڈ فرائیڈ نے پورا مضمون لکھا ہوا ہے۔ اس مضمون میں فرائیڈ نے کہا ہے کہ زبان کے پھسلنے کا بھی ایک نفسیاتی اور ذہنی پس منظر ہوتا ہے۔ لیکن جارج بش کے خطاب کے بعد مغرب نے اپنی اسلام دشمنی کے مزید شواہد پیش کیے۔ اٹلی کے اس وقت کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ بدقسمتی سے برلسکونی سے کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ تو بظاہر کہہ رہے ہیں کہ آپ نائن الیون کے بعد دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ کو مغربی اور اسلامی تہذیب کے موازنے اور مغربی تہذیب کے برتر ہونے کا خیال کیوں آیا؟۔ اس سلسلے میں امریکی صدر بش کے اٹارنی جنرل الیش کرافٹ نے تو حد ہی کردی۔ انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کے تصور خدا پر براہ راست حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے بہتر ہے کیونکہ عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے عیسیٰؑ کی قربانی دی ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا خدا اپنی عظمت کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے جہاد کی صورت میں جانوں کی قربانی مانگتا ہے۔

لیکن اس کے بعد اس سے بھی اہم واردات ہوئی۔ یورپ میں ناٹو کی افواج کے سابق کمانڈر جنرل کلارک نے بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے بعد شروع کی گئی جنگ اسلام کو Define کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں طے یہ کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان دعویٰ کرتے ہیں یا یہ اپنے ماننے والوں کو اسامہ بن لادن کی طرح تشدد پر اکساتا ہے؟۔

مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کا علمبردار ہے اور وہ پوری مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ پاتے دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر مغرب کا عمل اس سلسلے میں بھی مغرب کی اسلام دشمنی ہی کو سامنے لایا ہے۔ الجزائر میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسلام فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی مگر مغربی نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ اس نے الجزائر کی ناپاک فوج کو اسلامی فرنٹ پر چھوڑ دیا۔ حماس نے مقبوضہ علاقوں کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی مگر مغرب نے حماس کی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ مغرب نے مصر میں صدر مرسی اور ان کی حکومت کو چلنے نہ دیا اور یہاں بھی اس نے اخوان پر مصر کی فوج کو چھوڑ دیا۔ مغرب ترکی میں طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کراچکا ہے مگر اتفاق سے یہ بغاوت ناکام ہوگئی۔ ان مثالوں سے ثابت ہوا کہ اگر جمہوریت کے ذریعے کہیں بھی اسلامی تحریکیں آگے آتی ہیں تو مغرب جمہوری عمل ہی کو سبوتاژ کرادیتا ہے۔