سائفرکا مقدمہ جج سے مؤرخ کو منتقل

510

سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ کو سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا نہایت عجلت میں سنادی گئی ہے۔ جس کے ساتھ سائفر کیس، اس کا پس منظر اور امریکی رجیم چینج کا ماضی ایک بار پھر دنیا بھر کے میڈیا میں زیر بحث آنے لگا ہے۔ وہ سب تاریخی کردار دوبارہ یاد کیے جانے لگے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر امریکا کے بین الاقوامی تسلط اور اسکیم میں حکم بجا لانے سے انکار کیا اور پھر اس کی سزا پائی۔ ان میں ایران کے محمد مصدق سے لاطینی امریکا کے ہوگیو شاویز تک بہت سے نام لوح ِ حافظہ پر تازہ ہونے لگے ہیں۔ سائفر کیس امریکا سے آنے والے ایک دھمکی آمیز حکم نامے کی تشہیر سے متعلق تھا۔ گویا کہ اب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں سائفر کیس ایک تاریک باب کے طور پر پڑھایا اور سنایا جاتا رہے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے صرف دو افراد کا معاملہ نہ ہوتا تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی راہوں میں جا بہ جا ایسے سائفر پڑے ملتے ہیں جن کے ملنے پر پاکستان میں کوئی رنجور وملول ہو نہ کسی کی غیرت جاگی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی سسٹم کو اس طرح کے کوسنوں اور طعنوں کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ گزشتہ دہائی میں جب امریکا نے ڈرون حملوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کہرام مچار کھا تھا تو کچھ سرپھرے ان حملوں کو پاکستان کی عزت غیرت اور خودمختاری پر حملہ قرار دے کر ڈرون گرانے کے مطالبات کرتے تھے۔ پاکستان کے باکمال میڈیا اور بیانیہ ساز مشین نما دانشوروں نے اس سوچ کے حامل لوگوں کے لیے ایک طنزیہ نام ’’غیرت بریگیڈ‘‘ رکھا تھا۔ وہ بہت حقارت سے سرشام ٹی وی اسٹوڈیوز میں غیرت بریگیڈ کی طنزیہ اصطلاح استعمال کرتے۔ جہاں عزت انا اور غیرت کے یہ میعارات ہوں وہاں سائفر جیسی باتیں معمول ہی قرار پاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس سائفر کی حدت بطور پاکستانی جس شخص نے محسوس کی وہ صرف امریکا میں مقیم اسد مجید خان تھا۔ عمران خان کا غم وغصہ تو بنتا ہی تھا کیونکہ وہ اس کا ہدف تھے مگر اسد مجید خان ایک بہادر فرزند زمین کی صورت میں اس سائفر کہانی میں اپنے وطن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ڈونلڈ لو کے ہر اعتراض کا ایک جرأت مند پاکستانی کے طور پر جواب دیتے نظر آتے ہیں اور انہیں سائفر کہانی کا حقیقی ہیرو اور تمغہ ٔ غیرت کا حقیقی حقدار قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکا اس معاملے میں تردید نہ تائید میں چلمن سے لگا بیٹھا رہا۔
ڈیڑھ سال بعد امریکا کے ایک ادارے نے سائفر حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے امریکا کے انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو اور امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کے درمیان طویل گفتگو کا پورا متن جاری کر دیا تھا۔ عمران خان نے جیب سے جو کاغذ لہرایا تھا وہ آج عالمی سطح کا افسانہ بن چکا ہے اور دنیا میں ہر جگہ اس پر بات ہو رہی ہے۔ دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ کے بعد اس مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کو سنائی جانے والی سزائیں اس وقت دنیا بھر کا افسانہ ہے۔ دنیا کے تمام بڑے اخبارات ٹی وی چینل اور تجزیہ نگار اس پر بات کررہے ہیں۔ سائفر نے پاکستان کی سیاست میں جو سونامی برپا کر رکھا ہے اب وہ لہریں عالمی بالخصوص امریکی سیاست کے کناروں سے جا ٹکرائی ہیں۔ اسی لیے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کو بار بار وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں۔ جس میں وہ تسلیم کرچکے ہیں کہ امریکا عمران خان کے دورۂ روس سے خوش نہیں تھا اور وہ اپنے تاثرات سے پاکستان کو آگاہ کر چکا تھا۔ سائفر کے مندرجات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مسٹر ڈونلڈ لو نے اسد مجید خان کو بتایا کہ عمران خان نے اپنے طور پر کسی مشاورت کے بغیر روس کا عین اس روز دورہ کیا جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ مندرجات سے عمران خان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔ ڈونلڈ لو نے اسد مجید خان سے تحریک اعتماد کی بات بھی کی اور اس کے کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستان کے سارے گناہ معاف کرنے کا بھی کہا اور ناکام ہونے کی صورت میں امریکا اور یورپ کے عتاب سے بھی ڈرایا۔ اس غیر سفارتی زبان اور بدتہذیبی پر مبنی انداز گفتگو پر ایک غیرت مند پاکستانی کے طور پر اسد مجید خان کا بھڑکنا بجا تھا اور اسی لیے انہوں نے حکومت کو تجویز پیش کی اس پر امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا جائے۔ پاکستان اور امریکا کے پچھتر سالہ تعلق میں ایسے کڑے اور سخت مقامات جابہ جا آتے رہے ہیں مگر اس پر ردعمل بہت کم دیکھا گیا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو امریکی وزیر خارجہ نے ایٹمی پروگرام بند نہ کرنے کی صورت میں نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی۔ بھٹو چیختے چلاتے رہے مگر اسے ان کی ڈراما بازی اور مظلوم بننے کی کوشش سمجھا جاتا رہا یہاں تک وہ پھانسی پر جھول گئے۔ عمران خان کو تحریری طور پر دھمکی دی گئی اور اب یہ تحریر پاکستان اور امریکا کے پچھتر سالہ تعلق کے اوپر لٹکتا ہوا مستقل ڈھول ہے اور جو زمانے کی ہوائوں سے بج کر یہ بتاتا رہے گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کس قدر عدم توازن ہے اور اس عدم توازن میں امریکا مخالف جذبات کا پنپتے رہنا قطعی غیر فطری نہیں۔ جب بھی کوئی قوت کسی دوسرے پر بالادستی کو اس حد تک یقینی بنائے کہ اس کی سانس رکنے لگے تو فریق ثانی کا سانس بحال کرنے کے لیے کوششیں کرنا اور غم وغصہ سے بھرا رہنا سب کچھ فطری ہوتا ہے۔ اس لیے عمران خان نے سائفر کو ڈی کوڈ کروا نے کے بعد ہوا میں لہرایا اور اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کا شوق ووارفتگی سے آگے بڑھنا قطعی ناقابل فہم نہیں تھا۔ امریکا سے بس اس تحریر کی غلطی ہوگئی اور یوں اپنی دھمکیوں کا ثبوت چھوڑ گیا۔ اب امریکا کو بار بار اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اسے ایک آزاد اور دوست ملک کے ساتھ یوں دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو دی جانے والی دھمکی اور جنرل مشرف کو نیم شب کو کیا جانے والے ٹیلی فون کا کوئی ریکارڈ نہ چھوڑنے والے امریکی عمران خان کے معاملے میں سائفر کی دلدل میں پھنس گئے۔ صرف امریکا ہی نہیں جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام بھی تاریخ کے ایک مخصوص مقام پر آتا رہے گا جو اس سائفر کے مخاطب تھے۔ حد اب سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو سزا سنا کر سائفر کا وجود بھی تسلیم کر لیا گیا اور اس کہانی کو مستقبل کے مورخ کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ سائفر کے مندرجات اور اثرات کی روشنی میں عمران خان کے کردار رویے اور مقام کا تعین کرے۔ انہوں نے سائفر پر احتجاج کرکے ریاست کا مقدس قومی راز افشاء کیا ہے یا ایک قوم پرست کی طرح ملک کے اقتدار اعلیٰ اور خودمختاری کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی۔