روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی

673

چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مرگیا
راشن جو آرہا تھا وہ افسر کے گھر گیا
چڑھتی رہی مزار پہ چادر تو بیشمار
باہر جو ایک فقیر تھا سردی سے مر گیا
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا
چہرہ بتا رہا تھا کہ مارا ہے بھوک نے
حاکم نے کہہ دیا کہ کچھ کھا کے مرگیا

نیلسن منڈیلا کا قول ہے: While poverty stays, there is no Freedom ’’جہاں غربت ٹھیر جاتی ہے وہاں آزادی ختم ہوجاتی ہے‘‘، اور آسکر وائلڈ نے کہا تھا ’’پتھروں کے سوا ہر چیز بدل جاتی ہے‘‘۔

آسکر وائلڈ کے فقرے کو وسعت دی جائے تو صورت یہ بنے گی ’’پتھروں کے سوا ہر چیز بدل جاتی ہے۔ وہ پتھر جو حکمرانوں کے قلب کی جگہ پر رکھے رہتے ہیں‘‘۔ اوپر اشعار میں نہایت عسرت اور تنگ دستی کی زندگی بسر کرنے والوں کا احوال بیان کیا گیا ہے جو مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ جن کی حالت انتہائی قابل رحم ہے اور ساتھ ہی اس کا سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ وہ سبب جو صرف اور صرف بے حس حکمران طبقہ ہے۔ عوام کا خون چوسنے والی مافیا، جو ہم پر مسلط ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس سے فریا د کریں کس سے منصفی چاہیں۔ حکمران طبقہ اپنے اللے تللوں اور عیا شیوں میں مصروف ہے عام اور غریب آدمی کے حال کی کسی کو فکر نہیں۔

دور کوئی بھی ہو عوام کے باب میں حکمرانوں کا ظلم اور مہنگائی میں اضافہ بدستور ہے لیکن محسوس ہوتا ہے ظلم سہتے سہتے عوام کی قوت برداشت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بندروں کے ایک ہجوم میں سائنس دان نے ایک بندر کو کھانے کے لیے کیلا دیا۔ اچھا، موٹا، تازہ۔ دوسرے بندر کو گلا سڑا۔ دوسرا بندر اس پر اچھلا کودا۔ خوب احتجاج کیا۔ کچھ دیر میں تمام بندر احتجاج میں شامل ہوگئے۔ ہمارے حکمرانوں نے تمام صحت مند تروتازہ کیلے اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں اور خراب گلے سڑے عوام کے لیے وہ بھی قلیل اور مہنگے داموں۔ پہلے لوگ اس پر احتجاج کرتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں چینی پچیس پیسے مہنگی ہوئی لوگ سڑکوں پر نکل آئے لیکن حکمرانوں کی بے حسی دیکھ دیکھ کر لوگوں کی قوت مزاحمت دم توڑتی چلی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ بجلی، پانی اور گیس کی قلت اور مہنگائی پر تو قابو سے باہر ہیں (پورے کراچی میں گیس کی قیمتوں میں اضافے پر دھرنے کے بینر آویزاں ہیں) لیکن کیلوں یعنی غذائی اشیا کی قلت اور مہنگائی صبر سے برداشت کر لیتے ہیں۔ غذائی اشیا کی قلت اور مہنگائی سے لوگوں کے قلب وجان پر کیا گزرتی ہے۔ کس طرح روز وشب سلگنے لگتے ہیں۔ کم خوراک اور فاقہ زدہ بچوں کو دیکھ کر انسان کس طرح اپنے آپ سے شرمسار ہوتا ہے۔ کاش! اے کاش! حکمرانوں کو اندازہ ہوتا۔ اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافے کو عموماً پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے لنک کیا جاتا ہے لیکن پٹرول کی قیمتوں میں کمی سے قیمتوں میں ایک روپے کی کمی نہیں ہوتی۔ پٹرول کی قیمتیں تین سو روپے سے تجاوز کرکے اب دو سو ساٹھ پر آگئی ہیں لیکن مجال ہے اشیاء کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہو۔ اسی ہفتہ 20جنوری 2024 روزنامہ جسارت کے صفحہ اوّل کی خبرملاحظہ فرمائیے:

ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ جاری کر دی، مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ، پارہ مزید بڑھ گیا۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی مجموعی شرح ریکارڈ 44 اعشاریہ 64 فی صد پر پہنچ گئی۔ ایک ہفتے کے دوران 22 اشیاء مہنگی، 8 کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں پیاز کی قیمتیں بے قابو، 230 روپے فی کلو تک ریکارڈ کی گئی، رواں ہفتے پیاز کی فی کلو قیمت میں 18 روپے 31 پیسے کا اضافہ ہوا، ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر 10 روپے 78 پیسے فی کلو مہنگے ہوئے، ٹماٹر کی فی کلو قیمت 143 روپے سے بڑھ کر 154 روپے تک پہنچ گئی، رواں ہفتے مرغی کی فی کلو قیمت میں 9 روپے 86 پیسے کا اضافہ، ایک ہفتے کے دوران انڈے فی درجن 7 روپے 87 پیسے مہنگے ہوئے، رواں ہفتے دال ماش کی فی کلو قیمت میں 8 روپے 52 پیسے کا اضافہ ہوا، ایک ہفتے کے دوران لہسن کی فی کلو قیمت 12 روپے 41 پیسے بڑھ گئی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ رواں ہفتے کے دوران دال مونگ، بیف جلانے کی لکڑی بھی مہنگی ہوئی۔

آخر میں معروف شاعر منظور نیازی کی ایک نظم۔ ’’آٹا سستا رہن دیو‘‘ سے چند اشعار جن میںآٹا غذائی اشیا کا استعارہ ہے۔

بندے اغوا کرو، تاوان وصولو، بینکاں لٹو
اتوں اتوں رولا پا لئو، آٹا سستا رہن دیو

(بندے اغوا کرتے رہو، تاوان وصول کرو، بینک لوٹو، اوپر اوپر شور بھی مچاتے رہو، مگر آٹا سستا رہنے دو)

آپے قرض وصولن والے آپے ہو مقروض تسیں
اپنے قرضے معاف کرا لئو آٹا سستا رہن دیو

(قرض وصول کرنے والے بھی خود ہو اور مقروض بھی خود۔ اپنے قرض معاف کرالو آٹا سستا رہنے دو)

نھیرے وچ وی لبھ لوے گی روٹی منہ دابوہا
چانن اپنی جھولی پا لئو، آٹا سستا رہن دیو

(روٹی تو اندھیرے میں بھی منہ کا دروازہ ڈھونڈلے گی۔ روشنی کو تم اپنی جھولی میں ڈال لو، آٹا سستا رہنے دو)

کنو، سیب، انار تے کیلے خرمانی خربوزے
ساری نعمتاں آپے ہی کھا لو، آٹا سستا رہن دیو

(کنو، سیب، انار، کیلے، خوبانی، خربوزے، یہ ساری نعمتیں خود ہی کھالو، آٹا سستا رہنے دو)

اسیں تے روکھی سکی روٹی مرچاں نال وی کھالاں گے
چرغے، ککڑ آپوں ای کھا لو آٹا سستا رہن دیو

(ہم تو روکھی سوکھی روٹی مرچوں کے ساتھ بھی کھا لیں گے۔ چرغے، مرغ تم خود ہی کھالو، آٹا سستا رہنے دو)