ایلون ٹوفلر کا تہذیبی تصادم کا نظریہ

993

مغربی دنیا میں تہذیبی تصادم سے متعلق نظریات ان دنوں خوب ’’فروخت‘‘ ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں فوکویاما کی تصنیف ’’تاریخ کا اختتام‘‘ اور سیموئل ہن ٹنگ ٹن کے تہذیبی تصادم سے متعلق طویل مقالے کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ہن ٹنگ ٹن کے خیالات پر صرف مغربی دنیا ہی نہیں مسلم ملکوں میں بھی بڑی بحثیں ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تہذیبوں کی شناخت مذہب کے حوالے سے متعین کی ہے اور اسلامی تہذیب کی مغربی تہذیب کے ساتھ آویزش کی پیشگوئی کی ہے۔ مذہب ان کے خیالات کا مرکزی حوالہ نہ ہوتا تو شاید ان کے ’’نظریے‘‘ پر کوئی خاص توجہ نہ دی جاتی۔ ہمیں اس نظریے کی علمی جہت سے انکار نہیں مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہن ٹنگ ٹن صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے اس پر امریکا کے ’’قومی مفادات‘‘ کے منحوس سائے کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے، یہ اس نظریے کی سب سے بڑی خامی بھی ہے اور سب سے بڑی خوبی بھی۔ یہ مغرب میں علم کی نجکاری کی بھی ایک تازہ ترین اور عمدہ مثال ہے۔
ایلون ٹوفلر کا شمار اس وقت امریکا کے ممتاز ماہرین سماجیات اور مستقبل شناسوں (Futurists) میں ہوتا ہے اور ان کی تصانیف میں تہذیبی تصادم کے نظریے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن چونکہ مذہب کا ان کے نظریے میں کوئی مقام نہیں ہے اس لیے تہذیبی تصادم سے متعلق مباحث میں ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ حالاں کہ ان کی سنجیدہ کتابیں ہیرالڈروبنس اور سڈنی شیلڈن کے ناولوں کی طرح بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی کتاب ’’فیوچرشاک‘‘ مبینہ طور پر جدید کلاسک میں شامل ہے۔ ان کی دوسری دو تصانیف Third Wave اور Power Shift بھی Future Shock کا تسلسل ہیں اور بہت مقبول ہوئی ہیں۔ ان تینوں کتب کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ چین میں پالیسی ساز افراد کو یہ تصانیف تاکید کے ساتھ پڑھوائی گئی ہیں خود امریکا میں ٹوفلر پالیسی سازوں کے مشیر کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں صدر سے لے کر امریکی جنرلز تک بہت سے لوگ شامل ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر نیوٹ گنگرچ اس وقت سے ٹوفلر کے عقیدت مند ہیں جب وہ ایک یونیورسٹی میں یورپی تاریخ کے پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ٹوفلر کی تصنیف Creating a new civilization کا دیباچہ بھی لکھا ہے۔ کسی اور اعتبار سے نہ سہی امریکی پالیسی سازوں تک اپنی رسائی کے حوالے ہی سے ٹوفلر کے خیالات بہرحال اس لائق ہیں کہ ان پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
ٹوفلر ہن ٹنگ ٹن کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ مستقبل میں تہذیبوں کا تصادم ہوگا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ ’’ذرائع پیداوار‘‘ کا اختلاف اور امتیاز اس کا سبب ہوگا۔
ٹوفلر ہزاروں سال پر محیط انسانی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔
1۔ زرعی عہد، 2۔ صنعتی عہد، 3۔ اور مابعد صنعتی عہد
ٹوفلر کا کہنا ہے کہ معاشرے اور تہذیبوں کے خدوخال بڑی حد تک ذرائع پیداوار سے متعین ہوتے ہیں۔ یہ اساسی طور پر ٹوفلر کا اپنا خیال نہیں۔ ٹوفلر نے خود کہا ہے کہ اگرچہ میں مارکسٹ نہیں ہوں لیکن مارکس کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ معاشرتی اور تہذیبی ڈھانچے اور سانچے کی تعمیر ذرائع پیداوار اور ان میں ہونے والے تغیر سے ہوتی ہے، ذرائع پیداوار بدلتے ہیں تو معاشرے اور تہذیبیں بھی بدل جاتی ہیں۔ گویا ٹوفلر نے یہ خیال مارکس سے لیا ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ انہوں نے اس خیال کا اطلاق ایک نئے سیاق و سباق اور قدرے نئے تناظر میں کرنے کی کوشش کی ہے۔
ٹوفلر کا کہنا ہے کہ مغرب میں صنعتی نظام کا طلوع ہزاروں سال پر محیط زرعی تہذیب کی موت اور ایک نئی تہذیب کے ظہور کا اعلان تھا۔ نئی تہذیب کے پاس نئے اور بہتر ذرائع پیداوار تھے اور وہ ان ذرائع کی مدد سے پوری دنیا میں پرانی تہذیب کو تصادم کے نتیجے میں شکست دیتی چلی گئی۔ ٹوفلر نے زرعی عہد کو پہلی لہر اور صنعتی عہد کو دوسری لہر کا نام دیاہے اور اس نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ان لہروں کے تصادم کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یورپی اقوام ایشیا اور افریقا کی مختلف قوموں پر اسی لیے غالب آنے اور انہیں اپنا غلام بنانے میں کامیاب ہوئیں کہ وہ ایک نئی لہر کی نمائندہ تھیں۔
ٹوفلر نے لکھا ہے کہ 1950ء کی دہائی میں مغربی ملکوں میں تیسری لہر یا مابعد صنعتی عہد (Post Industrial Age) کا ظہور شروع ہوا اور ٹوفلر کے بقول یہ لہر صرف پینتالیس سال میں تمام ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے، لیکن ابھی اس لہر نے اپنا دائرہ مکمل نہیں کیا۔ توقع ہے کہ آئندہ دس پندرہ بیس پچیس سال میں یہ لہر مغربی دنیا میں اپنا دائرہ مکمل کرلے گی۔
ٹوفلر کا خیال ہے کہ اگرچہ تیسری لہر تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے لیکن اس وقت پوری دنیا میں بیک وقت تینوں لہریں موجود ہیں اور ان کے مابین آویزش کا عمل جاری ہے۔ ٹوفلر کے بقول خود ترقی یافتہ مغربی دنیا میں دوسری اور تیسری لہر کے درمیان تصادم جاری ہے اور دوسری لہر تیسری لہر کی مزاحمت کررہی ہے، اس طرح وہ خطے جہاں پہلی اور دوسری لہر کا وجود ہے وہاں بھی ایک تصادم کی کیفیت ہے۔ اس تصادم کے مظاہر کو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹوفلر نے دوسری لہر کے اساسی تصور کو Mass production کا نام دیا ہے جبکہ اس کا کہنا ہے کہ تیسری لہر کا بنیادی تصور Information ہوگی۔
سماجی اور تہذیبی تجربے کے مغربی پیمانوں کی رو سے (بھی) ٹوفلر کے خیالات اور فکر میں ’’عظمت‘‘ تلاش کرنا دشوار ہے بلکہ ان کے یہاں بصیرت اور گہرائی کی بھی کمی ہے البتہ ان کے یہاں وہ معروضیت بہت ہے جو اطلاعات اور اعداد وشمار کے انبار سے برآمد ہوتی ہے اور اس سے آگے نہیں جاتی۔ ٹوفلر کا کمال یہی ہے کہ وہ اپنے تھیسس کو درست ثابت کرنے کے لیے مختلف محنت کرتے ہیں معلومات اور اعداد و شمار کا ایسا انبار لگاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے اور انسان سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ٹوفلر کی رائے کی درستی پر ایمان لے آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹوفلر کا ’’اختصاص‘‘ نہیں مغرب میں یہ طریقہ کار یا طریقہ واردات بہت عام ہے۔ لیکن ٹوفلر ایسے لوگوں میں بہر حال ممتاز مقام رکھتا ہے۔
جہاں تک ٹوفلر کے بنیادی تصور کا تعلق ہے تو اسے باطل ثابت کرنے کے لیے یہی مثال کافی ہے کہ نبی اکرمؐ کی بعثت کے بعد ’’ذرائع پیداوار‘‘ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود انسانی تاریخ کی عظیم ترین تہذیب نے جنم لیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذرائع پیداوار زندگی پر اثر انداز ہی نہیں ہوتے۔ ذرائع پیداوار سے زندگی کا خارجی ڈھانچہ بہرحال متاثر ہوتا ہے۔
ہمارے لیے ٹوفلر کے نظریے کی اہمیت یہ ہے کہ آج مغربی دنیا اپنے مفادات کے تحت تہذیبوں کے تصادم کے ایسے نظریے کو آگے بڑھا رہی ہے جس میں مذہب کی اہمیت بنیادی ہے لیکن ممکن ہے کہ آگے چل کر کسی مرحلے پر اس کے مفادات کے لیے یہ نظریہ کفایت نہ کرے اور اسے ٹوفلر کے اس نظریے سے استفادے کی ضرورت محسوس ہو جس پر اس وقت توجہ نہیں دی جارہی۔