’’قصہ زن، زر، نیازی و نواز کے شرر کا‘‘

512

خاور مانیکا، پنکی پیرنی اور نیازی کی نیاز مندی کے واقعات پر مجھے ہرگز بھی کچھ ایسا اچنبھا نہیں تھا کہ میں اس غلاظت بھرے موضوع سے اپنے ہاتھ آلودہ کرتی، یہ معاملہ ہمارے پاکستانی مسلم معاشرے کے لیے خطرہ تھا ہی نہیں کہ ابھی یہاں ایک مخصوص صالح اجتماعیت کے تراشے ہوئے لعل و گہر سینیٹر مشتاق، اور ان کے دیگر ساتھیوں کی صورت میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں جو ایل جی بی ٹی بل سے لیکر، واہیات ڈراموں کی نشریات تک پر تبصرے اور تذکرے کر کے نہ صرف انہیں بند بھی کرا دیا کرتے ہیں اور بند نہ بھی ہوں تو ان کے شرور سے دیگر افراد کے ذہن و دل کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں مگر مجھے قلم اٹھانا پڑا جب اس طرح کے ڈھیروں ڈھیر معاملات عرصہ دراز سے پاکستان میں بھرے پڑے ہیں حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کے مختلف حوالوں سے اسی طرز کے معاملات۔ لیکن خاور مانیکا کے بیان پر جس شدت سے باقاعدہ قرآن وحدیث کے حوالے کے ساتھ اس کی مخالفت نظر آئی تو مجھے لگا کہ یہاں یہ ادنیٰ سی گواہی کم از کم اپنے جنازے کے طور پر ہی صحیح دینی بنتی ہے۔ کہ یہ اہم ترین بیانیہ عوام کے چٹخارے نہیں ہیں بلکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیس کسی سڑک اور چوراہوں پر کیا جانے والا مناظرہ نہیں ہے بلکہ عدالت میں زیر بحث اہم ترین ایشو ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح زینب قتل کیس کی جزیات کسی کمزور نفس کی خواہش نہیں محض اس بیمار پڑتی قوم کی مسلسل بیماری کی طرف جاتی وہ حالت زار تھی کہ جس میں لازمی ہو چکا تھا کہ عوام کو سمجھایا جائے کہ یہ وہ دور دجل ہے کہ جس میں بچوں کو سکھا دیا جائے کسی منہ بولے چاچے مامے کی ہمراہی میں کبھی نہ نکلنا، لباس و ستر سمیت دیگر پوشیدہ باتوں کا خیال رکھنا، مجھے یاد ہے کہ زینب الرٹ کے بعد سے میں نے بچوں کو سمجھانے کے انداز میں مزید بہت سی باتوں کا اضافہ انہی تذکروں کی گونج سن کر کیا تھا۔
خاور مانیکا کا بیان کردہ انٹرویو آن لائن آنے کے بعد سے سوشل میڈیا صارفین جانتے ہیں کہ ٹویٹر اور انسٹا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا ہے اس میں اپنے حصے کا گل کھلانے کی ہر گز آرزو نہیں تھی مگر اس واقعے کے چرچے کے دفاع میں جب واقعہ افک سمیت قرآن کریم کے احکامات تک بات آ پہنچی تو اپنی ذاتی گواہی کے طور پر یہ باور کروانا ضروری سمجھا کہ یہ کیس کسی پاک و پاکیزہ ہستی پر لگا وہ الزام نہیں ہے کہ جس کے لیے واقعہ افک کی مثالیں دی جائیں یہ جن لوگوں کا جن لوگوں پر الزام ہے دونوں طرفین حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں اور یہ محض الزام نہیں اس خواص کا طرزِ زندگی ہے کہ جو عوام پر اثر انداز ہوتا ہے اور جس کی اصلاح نہ کی گئی تو نجانے کیا قیامت بپا ہو جائے۔
بہت معذرت کے ساتھ ہمارے قلم حق کی امانت ہیں ان کی نوک پر اٹکا ہوا ہر جملہ احتیاط کا متقاضی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کے ناخداؤں کی حمایت کرتے ہوئے ہم کہیں صحابہ و صحابیات کی توہین کے مرتکب ہو جائیں اس واقعے، اس خاتون کے ذکر کے ساتھ قرآن
کریم کی مقدس آیات و واقعات کا جوڑ میری ناقص رائے کے مطابق احتیاط کا متقاضی ہے۔ یہ رائے نہیں کہ جسے منوانے کی خواہش ہو محض اپنی گواہی ہے جو رقم کرنے کی کوشش ہے بجائے اس لیے خاموش رہنے کے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ہم دفاع دین کے لیے قلم کی حرمت کے امین ہیں اگر ہمارے نوک قلم سے نکلی بات مبہم ہے حق وباطل کا واضح ساتھ نظر نہیں آ رہا تو اسے واضح کرنے کا مشورہ ضرور دیا جانا چاہیے۔ وگرنہ پھر ہمیں ہی جدید ڈراموں کی غلاظتوں پر ای میلز کرنے کے ٹاسک ملتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ غلاظتیں طبقہ اشرافیہ ہی کی پھیلائی ہوئی ہیں جن کے دفاع میں ہم بولتے ہیں اور جب برائی زبان زد عام ہو جائے تو پھر ہم برائی کے خلاف کھل کر چیختے ہیں ضرورت ہے برائی کے نکتہ آغاز پر اس کی بیخ کنی کی جائے نہ کہ پردہ پوشی؟ رہی خاور مانیکا کے اب منہ کھولے جانے کی بات تو پاکستان کی پوری تاریخ گواہ ہے ایک ہی صف میں محمود و ایاز کے یکجا ہونے کی داستانیں رقم کرنے کی کہانی تو اب پرانی ہوئی لہو لہو غزہ کی داستان میں وقت ہوا چاہتا ہے منافقت سے کچھ مزید نیچے اتر کر زن، زر، زمین کے پجاریوں شہباز و نیازی و نواز نامہ بروں کی ان کوششوں کا کہ جس میں مسئلہ فلسطین کو بھلانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کرنے کے مراحل بام عروج پر ہیں۔
وطن ِ عزیز کا سابق منظر نامہ گواہ ہے کہ یہاں سکندر مرزا سے پستول کی نال کے ذریعے استعفا لینے والے کرسی صدارت پر اور ختم نبوت کے حوالے سے کتابچہ لکھنے کا ارتکاب کرنے والے دار پر چڑھائے جانے کے قابل سمجھے جاتے ہیں یہاں شریعت اسلامیہ کے نام پر ظلمت کی ضیاء کو روشن کیا جاتا ہے تو کہیں سودی نظام کے تحفظ کے لیے علمائِ سو سے فتوے طلب کیے جاتے ہیں، تو کبھی 1973 کے ’’اسلامی‘‘ آئین میں سے اسلامی ٹچ بھی نکالنے کی کوششیں ہوتی ہیں حدود آرڈیننس کے نام سے خدائی حدود پامال کرنا تو عام سی بات ہو چکی ہے۔
یہاں لال مسجد والے دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں تو حافظ سعید اور جماعت الدعوہ پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے ضمن میں پابندی عائد کر دی جاتی ہے یہ سب بالکل ایسا ہی ہے جیسے سی آئی اے کو اپنے ہوائی اڈے دینا اور دے کر معصوم بن جانا، افغان وار کا حصہ بن کر مفادات کی سیاست کرنا اور پھر انہی مفادات کو سانحہ اوجڑی کیمپ میں جلتے ہوئے دیکھنا اور آج انہی افغان پناہ گزینوں کو پانچ دہائیوں تک اپنا اپنا کہتے ہوئے یک لخت پرایا کہہ کر نکال باہر کرنا اس ملک کی سیاست کہلاتی ہے اور آج یہی سیاست خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے کہ یہاں کے عوام تو اہل فلسطین کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کے عزم لیے بیٹھے ہیں اور خواص یعنی ’’سیاہ ست‘‘ دان سات کالی چیزوں کے حاملین خاور مانیکا کے ادھڑے ہوئے زخموں کی رفو گری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ کہانی نئی نہیں پرانے ٹریلر کا تسلسل ہے جس میں اپنے حصے کا سیاہ رنگ کرنے کے بجائے اگر ہم اس پر نظر اندازی کی شفافیت اپنا لیتے تو شاید زیادہ بہتر ہوتا کہ ویسے بھی اندھا قانون گونگے فیصلے بہری قوم سے کرنے کے لیے تیار ہے ہم نے قرآن کریم کی آیات کے ذریعے خواص کا دفاع نہیں بلکہ عوام کے گونگے، بہرے اور اندھے پن کا علاج کرنا ہے۔