غزہ کی پکار ’’بے بس کمر کس‘‘

591

دنیائے فانی میں اس وقت بسنے والے نفوس تقریباً 8ارب کی آبادی پر مشتمل ہیں جن میں 25فی صد دین اسلام کے ماننے والے مسلمان شامل ہیں۔ ویسے تو دنیا میں وحشت، درندگی، آمریت، غنڈہ گردی اور فسطائیت کا ماحول گرم ہے مگر بحیثیت مسلم امہ و قوم سب سے زیادہ وقت کے طاقتور ممالک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جن میں اسرائیل، بھارت و امریکا پیش پیش ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں جس خطے کے مسلمان سب سے زیادہ ان طاقتور قوتوں کے مظالم کا شکار ہیں ان میں غزہ، فلسطین و بیت المقدس میں رہنے والے مسلمان ہیں۔ حماس، حزب اللہ اور نہتے فلسطینی جس طرح ان طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کررہے ہیں اس نے دنیا کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ یہ ہی وہ موقع ہے جب ان بکھرے خیالات رکھنے والوں کو دین اسلام کی حقانیت سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم بات اس مرتبہ حماس کی وہ پیش رفت ہے جس نے اسرائیل امریکا و یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

اگر اس وقت کوئی سویا ہوا ہے اور بے پروا ہے تو وہ مسلمان حکمران ہیں جن کے ملکوں کو اسلامی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ ماسوا ایران، ترکیہ، کویت، مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان سمیت دیگر اسلام کا دم بھرنے والے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ جس کی وجہ سے دشمن اسرائیل اور اس کے سرپرست مست و سرپھرا امریکا گیدڑ بھبکیاں میڈیا کے ذریعے دے رہا ہے۔ اس وقت اگر تمام مسلمان ممالک یک زبان اور یک ارادے کے ساتھ بیت المقدس قبلہ اوّل اور فلسطین پر سے قبضہ ختم کرانے کے لیے میدان عمل میں آجائیں تو سال نہیں، مہینوں نہیں، ہفتوں نہیں چند دنوں میں ان کے غرور خاک میں مل جائیں گے اور اسرائیل کا وجود ان شاء اللہ نیست و نابود ہوجائے گا۔ گو کہ صرف عالم اسلام ہی میں نہیں دنیا کے دیگر چھوٹے بڑے ممالک میں اسرائیل کی درندگی و غنڈہ گردی کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں، ریلیاں نکالی جارہی ہیں مگر اس وقت میدان عمل میں نکلنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر مسلم امہ اٹھ کھڑی ہو اور اللہ کا نام لے کر نعرہ تکبیر سے دشمن پر ایسا وار کرے کہ وہ ہی نہیں آئندہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں۔

ہمیشہ کی طرح پاکستان کی حکومت جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے زبانی جمع خرچ اور بیانات کے سوا کچھ نہیں کررہی۔ البتہ ملک میں اسلامی، دینی تنظیمیں ضرور شاہراہوں پر مظاہرے اور اجتماعات کررہی ہے۔ یہ بھی حوصلہ افزا بات ہے کہ سول سوسائٹی بھی اپنا کچھ نہ کچھ کرادار ادا کررہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی حکومتیں خاص طور پر پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کمر کس لیں اور تمام رکاوٹوں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے غزہ پہنچ جائیں جہاں متاثرین پکار پکار کر مسلم امہ سے مخاطب ہیں کہ خدارا ہماری مدد کرو، اب نہیں تو کھبی نہیں۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ مستقبل قریب و بعید ایسی صورتحال کا سامنا تمہیں ہو اور اس وقت جہاد کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہو تم تنہا رہ جائو۔

دراصل حماس کا اسرائیل کے قبضے والے علاقے میں پیش قدمی خداوند کریم کی تائید ہے۔ ایک ایسا ظالم جس کے نام سے دنیا کانپتی ہو یہ کیسے ممکن ہے کہ کمزور آزادی کی تحریک چلانے والا مجاہد رہنما ایسا قدم اٹھالے جو بظاہر دنیا کے لیے خودکشی سے کم نہیں۔ ایمان رکھنے والے اس معرکے کو معجزے سے تعبیر کررہے ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ دراصل اسرائیل کو ربّ العالمین نے اس وقت ایسا گونگا، بہرہ اور عقل سے عاری کردیا کہ وہ سویا ہوا تھا۔ اس پر کچھ جاہل یہ بھی کہہ رہے کہ سوئے ہوئے شیر کو جگانے کی کیا ضرورت تھی؟ ایسے فلسفی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں اس وقت جو آزادی کی تحریکیں اٹھ رہی ہیں وہ دراصل اسی جدوجہد کا ثمر ہے جو فلسطین کے نہتے صف آرا ہیں۔ یہ اسی کی برکت ہے کہ اللہ ربّ العزت نے حماس سے یہ کام لیا اور اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا کہ وہ غفلت اور دنیاوی طاقت رکھنے والے گروہوں سے متاثر نہ ہوں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی تائید حاصل کرتے ہوئے، اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان مجاہدین کا ساتھ دیں جو امریکا و اسرائیل کے مدمقابل آئے ہیں۔ دراصل اللہ کریم نے ہم مسلمانوں کو موقع دیا ہے کہ دنیا کے نقشے میں تمام طاغوتی سلطنتوں کو مٹا کر ایک الہ، ایک رسول، ایک کتاب پر ایمان لانے والوں کی ریاستوں میں ظاہر کردو۔بہرحال جماعت اسلامی پاکستان کا امریکی سفارت خانے کے باہر کیا جانے والا تاریخی جلسہ جس میں باور کرایا گیا کہ فلسطین کے خلاف امریکا کا اسرائیل کی ہر طرح مدد کرنا اس کے لیے بربادی کا سبب بنے گا۔ نیز پاکستان کی حکومت سے پر زور مطالبہ کہ اس نازک موقع پر سرکاری سطح پر کھل کے مجاہدین غزہ کی حمایت کی جائے اور اپنی افواج کو بھی بھیجنے سے دریغ نہ کیا جائے کیونکہ یہ جہاد سے کم نہیں اور مسلمانوں پر ایسے مواقع پر جہاد فرض قرار پاتا ہے۔ فتح و نصرت کے لیے ربّ کریم نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

حماس کی پکار کو سمجھو ’’بے بس کمر کس‘‘۔ اس موقع پر کسی اللہ والے کا جملہ یاد آتا ہے۔ ’’لنگر کو توڑ دو اللہ پر چھوڑ دو‘‘۔ دعا ہے کہ جلد ربّ کریم مسلمانوں کو ایسی قوت و صلاحیت کے ساتھ دین اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی توفیق عطا فرمائے جس کا نتیجہ شہادت یا غازی قرار پاتا ہے۔