ڈالر میں تجارت سے اجتناب مشکل ضرور ناممکن نہیں

693

جماعت اسلامی صوبہ سندھ کی جانب سے ’’فلسطین کانفرنس‘‘ امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی کی دعوت پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ کی زیر صدارت قباء آڈیٹوریم کراچی میں منعقد کی گئی جس میں کراچی بھر سے مختلف سیاسی و دینی جماعتوں کے نمائندگان شعبہ تجارت، صحافت و دیگر مکتبہ فکر سے وابستہ افراد نے شرکت کی تمام لوگوں نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے جاری ظلم کی شدید مذمت اور حماس کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اظہار کیا یہ پہلا موقع تھا کے سب یک زبان اور ہم خیال تھے سب کی دلی خواہش تھی کہ اس بار امت مسلمہ کے عیش پسند، بے حس اور مصلحت پسند حکمرانوں کو مذمتی بیانات سے پرے ہو کر حماس کی جد وجہد کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ان کی دانست میں مجاہدین حماس نے یہودیوں کے ظلم و درندگی کے خلاف اور قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے یہ آخری معرکہ برپا کر دیا ہے اس موقع پر امہ کے ہر خاص و عام کی طرف سے اس میں اپنا حصہ نہ ڈالا گیا تو پھر ان کے خیال میں قبلہ اوّل کی آزادی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک خواب بن کر رہ جائے گی اور مسلم امہ کی طرف سے دکھائی گئی کوئی کمزوری اور کوتاہی خطے میں اسرائیلی جارحیت کو مزید تقویت و قوت کی فراہمی کا باعث ہوگی۔ اکثریت کا خیال تھا کہ اس موقع پر جبکہ حماس کے مجاہدین اپنے مال اور املاک کی تباہی کے ساتھ قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے راہ خدا میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں دنیا بھر کے مسلم مرد عورت، پیر پسر اور جوانوں کو دیگر مذاہب کے امن پسند اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ مل کر روزانہ کی بنیاد پر ہر ملک اور شہر کے مختلف چوک اور شاہراہوں پر فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے رائے عامہ کو بیدار کرنے کی جدو جہد کرتے رہنا چاہیے۔ کانفرنس میں پیش کی جانے والی تجاویزات کا خلاصہ اس طرح تھا۔

1۔ امریکا کے ساتھ تعلقات بحالی پر نظر ثانی کی جائے۔ 2۔ ہر شعبہ زندگی کی طرف سے اسرائیل کی مذمت اور اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، چاہے وہ فرنچائز کسی مسلمان ہی کی ملکیت کیوں نا ہو۔ 3۔ امریکی سفیر کی ملک بدری۔ 4۔ امریکی قونصلیٹ کا گھیرائو۔ 5۔ مسلم ممالک کے بے حس حکمرانوں کی خاموشی پر ان کی شدید مذمت وغیرہ جو ظاہر ہے ہمارے بس میں ہے اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔

وقت کی قلت کے باعث راقم سمیت کئی اور کو اظہار خیال کا موقع نہ مل سکا لیکن راقم الحروف نے اپنی کچھ تجاویز تحریری طور پر صدر مجلس کو پیش کر دیں تاکہ وہ اپنے کلیدی خطاب میں اس پر رائے دے سکیں۔ میرا کہنا تھا کہ کمبوڈیا تو مسلم ملک نہیں مگر اس نے امریکی سفیر کو اپنے ملک سے نکال دیا، سعودی عرب نے واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ جاری مذکرات معطل کر دیے، اردن نے امریکی صدر کا اپنے ملک کا دورہ منسوخ کردیا، ایران کے پاسداران لبنان اور شام کی حزب اللہ نے کھل کر مجاہدین حماس کی مدد بھی کی اور اپنی بھر پور حمایت کا یقین دلایا۔ میرا یہ بھی کہنا تھا نہ تو ہم امریکی قونصلیٹ کا گھیرائو کر سکتے ہیں نہ ہی امریکی سفیر کو ملک بدر اور نہ ہی اپنے مزائل ’’ابابیل‘‘ جس کا کامیاب تجربہ اسی دن کیا گیا تھا کا استعمال کر سکتے ہیں جو قوم چار دن میکڈونلڈ، نیسلے کی مصنوعات اور کوکا کولا کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی اور جس کے وزرائے خارجہ کے اہم اجلاس میں سوائے مذمتی قراداد کے کوئی اور بات نہ ہو اس سے کسی بڑی توقع عبث ہے۔

میری تجویز تھی کہ ہم اپنے ماہرین معیشت کے مشاہدے اور ان کی آراء کے ساتھ اپنی وزارت خارجہ اور خزانہ سے شدت کے ساتھ مطالبہ کریں کہ وہ کوئی ایسا لائحہ عمل اپنائیں جو ’’امریکی ڈالر کے بائیکاٹ سے متعلق ہے‘‘ تمام اسلامی ممالک اپنی اپنی کرنسی میں کام کریں سب جانتے ہیں 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں ٹینک اور توپ کام نہیں آئے تھے ’’تیل کا ہتھیار‘‘ کام آیا تھا اور اب بھی ایسا کوئی قدم اسرائیلی جارحیت اور اس پر امریکا یورپ اور یہود و نصاریٰ کی پشت پناہی کا منہ توڑ جواب ہوگا ایک غیر مصدقہ خبر تھی کے قطر نے امریکا و یورپ کو گیس کی سپلائی روکنے کا عندیہ دیا ہے اے کاش! اتنا تو ہم کریں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو تو ویسے بھی خبردار ہو جانا چاہیے کے آئندہ چند برسوں میں نت نئی ٹیکنالوجی پر جاری کام سورج کی شعاعوں سے چلنے والی ٹرانسپورٹ اور سولر پینلز کا کثرت سے استعمال پٹرولیم کی صنعت کے لیے سم قاتل ہوگا جس کے نتیجے میں ان ممالک کے امریکی ڈالر، یوروپی کرنسی اور برطانوی پاونڈ کے ذخائر میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملے گی اس وجہ سے ان مسلم ممالک کا ایک دوسرے کی کرنسی اور بارٹر سسٹم پر کیے جانے والا آج کا یہ عمل جاری جہاد میں ان کا حصہ اور ان کی آئندہ کی معیشت صنعت و تجارت کے فروغ کا باعث بھی ہوگا۔ دنیا میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جس کے تحت دو ممالک کے درمیان لین دین کا ڈالر میں ہونا ضروری ہو ہاں ترقی پزیر اور مقروض ممالک کے لیے یہ فیصلہ مشکل نہیں ناممکن سا لگتا ہے مگر رکاوٹیں ہٹانا ہی آگے بڑھنے کی ضمانت ہے اس وقت ملک چین دنیا بھر کی معیشت میں ایک ابھرتی قوت ہے ایسے وقت میں جبکہ پاک چین دوستی اپنے عروج پر ہے ہم یہ طے کر لیں کے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کا لین دین اور تجارت یوآن میں کریں گے تو ان دو خود مختار ریاستوں کو اس عمل سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سعودی عرب اپنی اس خواہش اظہار پہلے ہی کر چکا ہے کہ وہ چین کو اپنا تیل یوآن کے عوض دینے پر غور کر رہا ہے جبکہ ترکی، ایران اور چین یوکرین کے ساتھ ڈالر کے بجائے مقامی کرنسیوں میں تجارتی نظام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں امریکا اور چین کے درمیان جیسے جیسے تجارتی مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے چین اپنی کرنسی یوآن کو مستحکم کرنے کی غرض سے دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ یوآن میں تجارت کرنے کی حامی بھرتا جا رہا ہے ماہرین معیشت پاکستان کے مقابلے میں افغانی کرنسی کے استحکام کی واحد وجہ افغانستان میں تجارت کے لیے صرف افغانی کرنسی کا استعمال بتاتے ہیں واضح رہے کے افغانستان میں پاکستانی روپے سمیت دیگر کرنسیوں کے استعمال پر مکمل پابندی ہے۔

پاکستانی معیشت کا زیادہ انحصار یورپ اور امریکا پر ہے لیکن سابقہ حکومتوں اور موجودہ نگراں حکومت کی کوشش ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات بحالی پر توجہ دی جائے اور جس کے لیے کوششیں جاری ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم روس کے ساتھ تجارت کی موثر منصوبہ بندی کریں اور ان سے تجارت کے لیے نقد کے بجائے بارٹر سسٹم کو رواج دیں جس سے ہمارے ملک کی برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈالر کے لین دین میں رکاوٹ اور اس کے مشق ستم سے پاکستانی معیشت پر آئے بوجھ سے نجات کی صورت پیدا ہوگی ملک کے ایک معروف صنعت کار کی یہ بھی رائے ہے کہ ’روس‘ میں پاکستانی بینکوں کی برانچ بھی کھولیں جائیں تاکہ لین دین میں آسانی ہو سکے۔ دنیا بھر کے کئی ممالک امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ان کی کوشش ہے کے جلد از جلد وہ کوئی ایسا لائحہ عمل بنا سکیں جس میں ڈالر کی شمولیت نہ ہو اس لیے کے یہ صرف ایک کرنسی نہیں دنیا بھر میں ظلم درندگی جنگ و جدل آزاد ممالک کی سالمیت اور ترقی پزیر ممالک میں لا قانونیت اور جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ آزاد ممالک کے لوگوں کی حب الوطنی اور وفا داری کی خریدنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور ڈالر کا امین ملک امریکا دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے ملک اور قوم کی آزادی سلب کرنے کے لیے ہمیشہ ان کا استعمال کرتا رہا ہے۔