مالدیپ کے صدارتی انتخابات

610

جنوبی ایشیا کے ایک ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل اسلامی ملک مالدیپ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن راہنما محمد معیزو نے دوسرے راؤنڈ کے رن آف الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کر لی جسے مالدیپ کی نوزائیدہ جمہوریت کے علاوہ چین اور بھارت کے ساتھ مالدیپ کے تعلقات کے تناظر میں نمایاں اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ مالدیپ جس کی کل آبادی پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے میں اہل ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 82 ہزار ہے اور حالیہ رن آف الیکشن کا ٹرن آؤٹ 85 فی صد رہا ہے جو پہلے راؤنڈ کے ووٹوں سے تھوڑا زیادہ ہے۔ کامیاب امیدوار 45 سالہ محمد معیزو کا تعلق پروگریسیو پارٹی سے ہے جو ملک میں چینی قرضوں اور سرمایہ کاری کے حق میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ صدر ابراہیم محمد صالح نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے نو منتخب صدر معیزو کو مبارک باد دی ہے۔ 61 سالہ محمد صالح 17 نومبر کو اپنے جانشین کے حلف تک نگراں صدر کے طور پر فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ محمد معیزو نے 8 ستمبر کو ووٹنگ کے پہلے مرحلے کے دوران تقریباً 46 فی صد ووٹ لیکر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ پہلے مرحلے کے الیکشن میں صدر ابراہیم صالح کم ووٹر ٹرن آؤٹ اور ان کی مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر پھوٹ کی وجہ سے محض 39 فی صد ووٹ لینے میں کامیاب ہوسکے تھے۔
محمد معیزو کی شاندار اور غیر متوقع فتح کو مالدیپ کی خارجہ پالیسی خاص طور پر تزویراتی اہمیت کے حامل ملک میں اثر رسوخ کے لیے چین اور بھارت کی جنگ کا فیصلہ کرنے میں اہم مضمرات کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ محمد معیزو جو اس وقت دارالحکومت مالے کے میئر بھی ہیں نے فتح کے بعد پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر اپنے پر جوش کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کا نتیجہ ہمارے لوگوں کی حب الوطنی کا عکاس ہے۔ ہم تمام پڑوسیوں اور دو طرفہ شراکت داروں سے ہماری آزادی اور خودمختاری کا مکمل احترام کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ محمد معیزو جو ہاؤسنگ کے سابق وزیر بھی رہ چکے ہیں نے حکومت کے ترقیاتی پروگرام میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ تھا جب کہ انہوں نے گزشتہ سال چینی کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ صدارتی الیکشن میں ان کی پارٹی کی جیت سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کا ایک نیا باب کھلے گا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ محمد معیزو جنہیں سابق صدر عبداللہ یامین کا سیاسی جانشین بھی کہا جاتا ہے کی جیت سے سابق صدر عبداللہ یامین کی رہائی کا امکان بھی پیدا ہوگیا ہے جو 2018 میں اس وقت اقتدار سے محروم ہوگئے تھے جب وہ ملک کو چین کے قریب لیجانے اور تیزی سے خود مختاری کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یاد رہے کہ سابق صدر عبداللہ یامین ان دنوں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے الزام میں 11 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مالدیپ کی پروگریسو پارٹی کے رہنما عبداللہ یامین نے 2013 سے 2018 تک اپنی صدارت کے دوران مالدیپ کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ بنایا تھا۔ لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ پروگریسو پارٹی کے رہنما محمد معیزو کی کامیابی کوئی غیراہم کامیابی نہیں ہے۔
اسی طرح محمد معیزو کی جانب سے الیکشن مہم میں صدر ابراہیم صالح پر ملک میں بھارت کو غیر ضروری رعایتیں اور سہولتیں دینے کے سنگین الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جس پر صالح کا کہنا ہے کہ مالدیپ میں ہندوستانی فوج کی موجودگی ایک معاہدے کے تحت ڈاک یارڈ بنانے کے لیے تھی اور انہوں نے ملک کی خودمختاری کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ واضح رہے کہ محمد معیزو الیکشن مہم کے دوران وعدہ کرچکے ہیں کہ اگر وہ صدارت جیت جاتے ہیں تو وہ مالدیپ سے ہندوستانی فوجیوں کو ہٹا دیں گے اور ملک کے تجارتی تعلقات میں توازن پیدا کریں گے جس کے متعلق ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ہندوستان کے حق میں ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے مالدیپ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو بھارتی اثر رسوخ پر تشویش کے بجائے اقتصادی اور گورننس کی توقعات پر پورا اترنے میں حکومت کی ناکامی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق حکومت میں بھارت کی جانب مالدیپ کا جھکائو کوئی زیادہ بڑا ایشو نہیں تھا اصل مسئلہ سابق حکومت کی ناقص اور کمزور پالیسیاں تھیں۔ اسی طرح ابراہیم صالح کو پہنچنے والے انتخابی دھچکے کی ایک بڑی وجہ سابق صدر محمد نشید کی مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی سے عین انتخابات کے وقت علٰیحدگی اور پہلے راؤنڈ میں ابراہیم صالح کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے اور دوسرے راؤنڈ میں غیر جانبدار رہنے کے فیصلے کو بھی قراردیا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بحر ہند کے اہم جیو اسٹرٹیجک مقام پر واقع یہ چھوٹا سا ملک اپنی علاقائی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے دو بڑے پڑوسی ممالک بھارت اور چین کے درمیان علاقائی برتری کے لیے جاری کشمکش میں غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن رہنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ پھران دو بڑی قوتوں کی تزویراتی چپقلش کا شکار ہو کرکسی ممکنہ آزمائش سے دوچار ہونے کے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔