چیف صاحب قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں

598

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے روکنے بلکہ جج کے منصب سے ہٹانے کی کوششیں تو بہت کی گئیں لیکن کوئی کوشش بھی بار آور ثابت نہ ہوئی۔ عمران حکومت کے زمانے میں ان پر مالی بدعنوانی کا الزام لگا کر صدر عارف علوی کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا گیا تا کہ انہیں نااہل قرار دیا جاسکے لیکن محرکین کو منہ کی کھانی پڑی اور سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کو اتفاق رائے سے مسترد کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ریفرنس کے اصل محرک اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ تھے جو جسٹس قاضی کو اپنی پولیٹیکل انجینئرنگ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان بطورِ وزیراعظم اس ریفرنس کے حق میں نہیں تھے بلکہ انہوں نے مذکورہ صحافی سے کہا تھا کہ ان کا دماغ خراب ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجیں؟ لیکن جنرل باجوہ نے ان پر اتنا دبائو ڈالا کہ ان کا دماغ واقعی خراب ہوگیا اور انہوں نے انکار کے بعد اگلے ہی دن یہ ریفرنس صدر مملکت کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا جہاں اس کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ بعد میں عمران خان بار بار یہ کہتے سنے گئے کہ ریفرنس بھیجنا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ جسٹس قاضی کی اہلیہ کو ایف آئی اے کے ذریعے ہراساں بھی کیا گیا لیکن اس کا نتیجہ بھی حکومت کی رسوائی کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔

بہرکیف تمام تر ناانصافیوں کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنا حق حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان سے گزشتہ روز اس صدر نے حلف لیا جس نے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا تھا۔ حلف اٹھانے کی تقریب میں غیر معمولی بات یہ تھی کہ ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں جس میں مخالفین کے لیے یہ خاموش پیغام تھا کہ فیملی کو بدنام کرنے کی ان کی ساری کوششیں ناکام رہی ہیں۔ جسٹس قاضی نے چیف جسٹس بنتے ہی بعض انقلابی اقدامات بھی کیے ہیں جو ان کی روشن خیالی کی دلیل ہے۔ مثلاً انہوں نے چیف جسٹس کے لیے بلٹ پروف گاڑی واپس کردی اور کہا کہ وہ اس منصب کے دوران وہی گاڑی استعمال کریں گے جو کررہے ہیں۔ انہوں نے پہلے دن عدالت عظمیٰ پہنچنے پر پولیس سے گارڈ آف آنر لینے سے بھی انکار کردیا اور پولیس اسٹاف کو تلقین کی کہ وہ اپنے فرائض مستعدی اور دیانتداری سے انجام دیں یہی کافی ہے۔ جسٹس قاضی نے اپنے لیے ضروری سیکورٹی کے سوا غیر معمولی پروٹوکول کا خاتمہ بھی کردیا۔ سابق چیف جسٹس ہمیشہ فل بنچ بنانے سے کتراتے رہے۔ جسٹس قاضی نے پہلے ہی مقدمے میں فل کورٹ بنا کر اس کی کارروائی کو میڈیا کے لیے اوپن کردیا۔ چیف جسٹس قاضی کے ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انصاف کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں اور وہ اسے برسرِ عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کی اصطلاح میں قاضی القضاد تو ہیں ہی ذاتی حیثیت میں وہ ایک محب وطن پاکستانی بھی ہیں۔ وہ پاکستان کے موجودہ حالات کو ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے دیکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ قضا کا اعلیٰ ترین منصب ان سے یہ تقاضا کررہا ہے کہ وہ ان حالات کی اصلاح کے لیے اپنا موثر کردار ادا کریں اور خود اپنی ذات کو اس کی مثال بنائیں۔ جسٹس قاضی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ اس کی ابتدا دیانت و امانت کے خالص جذبے سے ہوئی تھی اور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بطور گورنر جنرل اس کی روشن مثال

قائم کی تھی۔ وہ گورنر ہائوس میں بے مقصد ایک بلب جلانے کو بھی قومی دولت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ قانون کی پاسداری کا یہ عالم تھا کہ اپنے لیے ٹریفک رکوانے کے بھی روادار نہ تھے۔ لیکن ان کے بعد پاکستان آہستہ آہستہ اپنی منزل اور اپنے مقصد سے دور ہوتا چلا گیا اور ایسی حکمران اشرافیہ وجود میں آگئی جو پاکستان کو لوٹ کا مال اور اس کے عوام کو اپنا غلام سمجھنے لگی۔ اس نے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کرلیا۔ کرپشن، دھوکا دہی اور منی لانڈرنے کے ذریعے اندرون و بیرون ملک بڑی بڑی جائدادیں بنالیں اور دولت کے انبار اکٹھے کرلیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان تو غریب اور مقروض ہوگیا لیکن پاکستان کے چند افراد کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس غریب ملک کی حکمران اشرافیہ نے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی سہولتیں مفت اپنے نام کرلیں۔ اس وقت ملک میں اعلیٰ حکام، ججوں اور جرنیلوں کی لگژری گاڑیوں سمیت 90 ہزار سرکاری گاڑیاں ہیں، جن میں ہر ماہ لاکھوں لیٹر پٹرول مفت پھونکا جاتا ہے اور اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے اور اس نسبت سے مہنگائی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پٹرول کے بعد پوری حکمران اشرافیہ بجلی بھی مفت استعمال کررہی ہے۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں بجلی کے استعمال کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جبکہ ججوں، جرنیلوں اور اعلیٰ بیوروکریٹس کو دو ہزار یونٹ تک بجلی مفت استعمال کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ دوسری طرف بجلی کی قیمت اتنی بڑھادی گئی ہے کہ عام آدمی 300 یونٹ بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔

ہم نے یہ بپتا اس لیے بیان کی ہے کہ چیف جسٹس محترم قاضی فائز منصف اعلیٰ کی حیثیت سے اس بات کا جائزہ لیں کہ عوام کے ساتھ کتنی بھیانک ناانصافی ہورہی ہے اور کتنا ہولناک ظلم روا رکھا جارہا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق حکمران اشرافیہ (جس میں جج، جرنیل، بیوروکریٹس سبھی شامل ہیں) اس غریب اور مقروض ملک سے سالانہ ساڑھے 17 ارب ڈالر کی مراعات، سہولتیں اور مالی مفادات حاصل کررہی ہے جبکہ خود ریاست پاکستان کو محض 3 ارب ڈالر قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑنا پڑ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر حکمران اشرافیہ کی یہ تمام مفت مراعات، سہولتیں، شاہانہ پروٹوکول اور پُرتعیش طرزِ زندگی پر پابندی لگادی جائے تو پاکستان صرف ایک سال میں قرض لینے کے بجائے قرض دینے والا ملک بن سکتا ہے۔

حکمران اشرافیہ پر یہ پابندی ہی درحقیقت ملک میں ایک منصفانہ نظام کی جانب فیصلہ کن قدم ہے۔ جب تک یہ قدم نہیں اٹھایا جائے گا وطن عزیز میں حق و انصاف کا قیام ایک خواب رہے گا، منصف اعلیٰ کی حیثیت سے جسٹس فائز عیسیٰ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس منصفانہ نظام کے قیام کے لیے آگے بڑھیں۔ وہ چونکہ خود بھی موجودہ سسٹم کا حصہ ہیں اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ رضاکارانہ طور پر تمام مفت مراعات اور سہولتوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کریں اور قوم کو بتائیں کہ وہ پٹرول اور بجلی سمیت اپنے تمام یوٹیلیٹی بلز اپنی تنخواہ سے ادا کریں گے۔ وہ اپنے تمام ساتھی ججوں کو بھی اس ایثار کی ترغیب دیں۔ بعدازاں سوموٹو نوٹس کے ذریعے اس کیس کی سماعت کرکے حکمران اشرافیہ کی تمام مفت مراعات، سہولتوں اور شاہانہ پروٹوکول کو کالعدم قرار دے دیں۔ عوام بزبانِ حال ان سے کہہ رہے ہیں۔

چیف صاحب قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں