بجلی کی کہانی، حقائق کی زبانی

664

بجلی کے ظالمانہ بلوں پر بہت شور مچا، بڑا ہنگامہ ہوا، جماعت اسلامی کی اپیل پر ملک بھر کے تاجروں اور کاروباری طبقے نے پرامن ہڑتال کرکے اپنا احتجاج بھی موثر انداز میں ریکارڈ کرادیا۔ سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ بھی گونجتا رہا کہ حکمران اشرافیہ خاص طور پر ججوں، جرنیلوں، صدر، وزیراعظم، چیئرمین نیب، بیوروکریٹس اور واپڈا ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرنے کی مراعات کو ختم کرکے عوام پر سارا بوجھ ڈالنے کا سلسلہ روکا جائے، لیکن حکومت کا پرنالہ وہیں رہا جہاں پہلے تھا۔ نگراں وزیراعظم نے عوام کو بجلی کے بلوں میں رعایت دینے کے لیے ہنگامی اجلاس بلایا لیکن وہ اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ حکومت رعایتی فارمولا لے کر آئی ایم ایف کے پاس گئی اور اُس نے اِس رعایتی فارمولے پر تحقیر کی نظر ڈالتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا۔ اب سنا ہے کہ حکومت شرمسار ہونے کے بجائے نیا فارمولا لے کر عالمی مہاجن کے پاس گئی ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے، حکومت کے زیر غور ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اگست کا بل صارفین سے چار قسطوں میں وصول کرلیا جائے لیکن یہ ایک مہینے کے بل کا معاملہ نہیں، ہر مہینے کے بل کا مسئلہ ہے جو لوگوں کی استطاعت سے کہیں بڑھ کر آرہا ہے اور اسے ہر مہینے قسطوں میں کیسے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بجلی کے مفت استعمال کا معاملہ ہے تو یہ اوّل الذکر حکمران اشرافیہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ جس کا بھی دائو لگ رہا ہے وہ بجلی مفت استعمال کررہا ہے۔ بلوچستان کے تمام قبائلی سردار اپنے اپنے ڈیروں میں بجلی مفت استعمال کررہے ہیں، خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقوں میں مفت اور غیر محدود بجلی استعمال کرنے کا چلن عام ہے۔ سندھ کے وڈیرے بھی یہی کام کررہے ہیں، ان کے ڈیروں پر میٹر ریڈر پَر نہیں مار سکتا۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ خود میٹر ریڈر رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اندرونِ سندھ میٹر ریڈر کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ وہ بالآخر مروجہ سسٹم کا کُل پرزہ بن جاتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے کنڈا سسٹم رائج کیا تھا، اب یہ باقاعدہ ایک مافیا بن گیا ہے۔ اس میں بجلی کمپنی کے ملازمین بھی ملوث ہیں جو لوگوں کو کنڈا لگا کر دیتے ہیں اور مہینے کے آخر میں ان سے بھتا وصول کرتے ہیں۔ پنجاب میں میٹر کی رفتار کو سست کرکے بجلی چوری کی جاتی ہے۔ جبکہ فیکٹریوں اور کارخانوں میں بجلی کے علاوہ گیس کی چوری بھی عام ہے۔ مزید برآں بجلی کی سپلائی کے فرسودہ نظام کی وجہ سے لائن لاسز کا تخمینہ بھی ہوشربا ہے۔ ان تمام خرابیوں کا بوجھ اُن عوام پر پڑتا ہے جو ہیرا پھیری نہیں جانتے اور ہر ماہ باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

اب ہم آئی پی پیز کی اجارہ داری کی طرف آتے ہیں۔ 1986ء کی دہائی تک پاکستان پن بجلی کی پیداوار میں خود کفیل تھا۔ تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم اور منگلا ڈیم کے بجلی گھروں سے وافر مقدار میں بجلی پیدا ہورہی تھی جو اس وقت کی ضرورت کے لیے کافی تھی لیکن ملک میں صنعتی عمل تیز ہونے اور آبادی کی رفتار بڑھنے کے سبب ہمیں مزید بجلی درکار تھی جس کے لیے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یہ منصوبہ بھی کم و بیش 50 سال پرانا ہے، اس کا بلیو پرنٹ جنرل ایوب خان کے زمانے میں تیار ہوگیا تھا لیکن بھارت کو جونہی اس کی سن گن لگی، اس نے اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی اور انڈس کمیشن کے اجلاس میں بھارت کے نمائندے نے برملا کہا کہ ہماری کوتاہی سے پاکستان نے دو بڑے ڈیم بنالیے ہیں، اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تیسرا ڈیم کیسے بناتا ہے۔ اس زمانے میں سرحدی گاندھی عبدالغفار خان ابھی زندہ تھے، انہیں دورئہ بھارت کی دعوت دی گئی۔ وہ بھارت پہنچے تو ان کا نہایت پرجوش استقبال کیا گیا۔ جگہ جگہ ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد ہوئیں، ہندوستان کی تحریک آزادی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں سونے میں تولا گیا اور پاکستان واپسی پر ان کی خدمت میں 90 لاکھ روپے کی تھیلی پیش کی گئی جو موجودہ زمانے کے لحاظ س 90 کروڑ سے بھی زیادہ کی تھی، اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان کالا باغ ڈیم بنا رہا ہے جس سے ان کا شہر نوشہرہ بالکل ڈوب جائے گا۔ پاکستانی حکام یہ کام اس لیے کررہے ہیں کہ آپ کو پاکستان کی مخالفت کرنے کی سزا دے سکیں۔ ان سے کہا گیا کہ وہ پاکستان واپس جا کر سب سے پہلے نوشہرہ بچانے کی فکر کریں۔ چنانچہ عبدالغفار خان نے پاکستان واپس آتے ہی نوشہرہ میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم جان دے دیں گے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ پھر ان کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں کھل کر میدان میں آگئی اور اسے ایک سیاسی مسئلہ بنادیا جو وقت کے ساتھ ساتھ گمبھیر ہوتا چلا گیا اور کوئی بھی حکومت کالا باغ ڈیم تو کیا کوئی چھوٹا ڈیم بنانے کی ہمت نہ کرسکی۔

بجلی کی ضرورت بڑھی تو ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس لگانے کا مشورہ دیا گیا اور آئی پی پیز کو منظر عام پر لایا گیا جن کے مالکان بیرونی سرمایہ کار نہیں اپنے ہی ملک کے بزنس ٹائیکون اور سرمایہ کار تھے لیکن انہوں نے اتنی کڑی شرائط پر حکومتوں سے معاہدے کیے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ لوگ واقعی پاکستانی ہوسکتے ہیں۔ معاہدے میں فراہم کی جانے والی بجلی کا ریٹ دنیا میں سب سے زیادہ رکھا گیا اور ستم ظریفی یہ کہ ادائیگی کو ڈالر سے منسلک کردیا گیا۔ معاہدے میں یہ ظالمانہ شق بھی شامل کی گئی کہ آئی پی پیز کی بجلی استعمال ہو نہ ہو، ادائیگی لازماً کرنی پڑے گی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حکمرانوں نے بھاری کمیشن اور کک بیکس کے لالچ میں آئی پی پیز مالکان کی تمام شرائط من و عن قبول کرلیں۔ حکمرانوں کی جیب یقینا بھاری ہوگئی جبکہ آئی پی پیز مالکان اربوں کھربوں میں کھیلنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان مالکان نے بھی ڈیمز بنانے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی درپردہ شدید مخالفت کی اور ڈیمز کے مخالفین پر اربوں روپے پانی کی طرح بہائے، ان لوگوں نے بیوروکریٹس پر بھی اربوں کی سرمایہ کاری کی تاکہ پن بجلی کا کوئی منصوبہ نہ چلنے پائے۔ جماعت اسلامی نے آئی پی پیز معاہدوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عدالت شاید اس سلسلے میں جلد کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ مقتدر فیصلہ ساز قوتیں اس معاملے کو ہاتھ میں لیں اور ظالمانہ معاہدے منسوخ کرکے عوام کی گردن آئی پی پیز کے شکنجے سے چھڑائیں۔ بجلی چوری کا ہر سطح پر سدباب کیا جائے اور لائن لاسز روکنے کے لیے نئی ٹرانسمیشن لائن نصب کرنے پر توجہ دی جائے، یہ بھی ضروری ہے کہ حکمران اشرافیہ کو مفت بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ بیک قلم منسوخ کردیا جائے۔ ہمیں تو حیرت ہے کہ سوشل میڈیا پر بار بار اس بات کا ذکر آرہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت دیگر حاضر سروس اور ریٹائرڈ جج حضرات دو ہزار یونٹ تک ماہانہ بجلی مفت استعمال کررہے ہیں جبکہ عوام کو تین سو یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے پر بھاری بلوں کی چھری سے ذبح کیا جارہا ہے لیکن یہ کیسے منصف ہیں کہ ان کا ضمیر نہیں جاگا اور کسی جج نے یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ رضا کارانہ طور پر مفت بجلی کی سہولت سے دستبردار ہوتا ہے۔ ججوں کے علاوہ دیگر مراعات یافتہ طبقے بھی ضمیر کی دولت سے محروم ہیں۔ اب ان کا علاج یہی ہے کہ ایک حکم کے ذریعے ان سے یہ رعایت واپس لے لی جائے۔