مغرب کا مکروہ چہرہ

647

فرانسیسی اسکولوں نے تعلیمی سال کے پہلے دن درجنوں مسلمان لڑکیوں کو ان کے عبایہ اتارنے سے انکار کرنے پر گھر بھیج دیا ہے۔ گزشتہ پیر کی صبح تقریباً 300 لڑکیاں عبایا پہنے اپنے اسکولوں میں گئی تھیں جنہیں حکومت کی جانب سے حال ہی میں عبایا پرپابندی کے فیصلے کی روشنی میں اسکولوں میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان بچیوں میں زیادہ تر نے لباس کو تبدیل کرنے پر اتفاق کیا لیکن 67 نے انکار کر دیا جس پر انہیں گھر بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ فرانسیسی حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسکولوں میں عبایا پر پابندی عائد کر رہی ہے جس کا مقصد تعلیمی نظام میں سیکولرازم کے اصولوں کو فروغ دینا بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے سر پر اسکارف کو مذہبی وابستگی کا مظاہرہ کرنے کی بنیاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس اقدام کا فرانس کے دائیں بازو نے خوشی کا اظہار کیا ہے البتہ بائیں بازو کا کہنا ہے کہ یہ شہری آزادیوں کی توہین ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اس متنازع اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس میں ایک اقلیت مذہب کو ہائی جیک کرنا چاہتی ہے اور یہ لوگ جمہوریہ اور سیکولرازم کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کے بدترین نتائج جیسے تین سال قبل استاد سیموئیل کا قتل ہوا تھا کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں۔
یہ بات لائق تحسین ہے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک انجمن ایکشن فار دی رائٹس آف مسلمز (ADM) نے اس یکطرفہ فیصلے پر مبنی حکومتی حکام کے خلاف شکایات کے لیے ریاستی کونسل، فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت میں عبایا لباس پر پابندی کے خلاف حکم امتناع کے لیے ایک تحریک دائرکردی ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حالیہ پابندی سے قبل بھی فرانس میں مارچ 2004 میں متعارف کرائے گئے ایک قانون کے تحت اسکولوں میں ایسے نشانات یا لباس پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے ذریعے طلبہ کی مذہبی وابستگی ظاہر ہوتی ہو۔ ان میں بڑی عیسائی صلیبیں، یہودی کپاس اور مسلمان خواتین کے سروں پر اوڑھے جانے والے اسکارف شامل تھے۔ ہیڈ اسکارف کے برعکس عبایوں پر مکمل پابندی نہیں لگائی گئی تھی لیکن حالیہ اقدامات سے یوں لگ رہا ہے کہ اب حکومت عبایہ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس کا واضح مقصد مسلمان خواتین پر ان کی خواہش اور مرضی کے برعکس عبایا کے ذریعے اپنے ستر کو ڈھانپنے پر پابندی عائد کرنا ہے۔ پیر کو فرانسیسی وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ فرانسیسی حکام 500 سے زائد ایسے اسکولوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں سے عبایا پر نئی عائد کردہ پابندی کی خلاف ورزی کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
دراصل حکومت نے موسم گرما کی تعطیلات کے خاتمے سے پہلے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسکولوں میں عبایا پر پابندی عائد کر رہی ہے جس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا اس یعنی عبایا نے تعلیم میں سیکولرازم کے اصولوں کو توڑا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے سر پر اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے۔ وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے میڈیا کو بتایا کہ فرانس بھر میں کم ازکم 513 ایسے ادارے ہیں جن کی شناخت ہم نے تعلیمی سال کے آغاز میں ممکنہ تشویش کے طور پر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی سال کے آغاز سے پہلے کام کیا گیا تھا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کن اسکولوں میں یہ مسئلہ پیش آ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی تنفیذ کے لیے تربیت یافتہ اسکول انسپکٹرز کو مخصوص اسکولوں میں رکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ فرانس میں تقریباً 45 ہزار اسکول ہیں جن میں سے 12 ملین طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے بائیں بازو نے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ عبایا پابندی کے ساتھ میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی قومی ریلی کا مقابلہ کرنے اور مزید دائیں طرف جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دریں اثناء دائیں طرف کی کچھ سرکردہ شخصیات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاستی اسکولوں میں بچوں کو اسکول یونیفارم پہنائے البتہ وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے کہا کہ وہ موسم خزاں میں یکساں ٹرائل کا اعلان کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ ایک معجزاتی حل ہے جو اسکول کے تمام مسائل کو حل کر دے گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس سے فرانس کے سیکولر امیج کو اجاگرکرنے میں کافی مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ فرانس یا کسی یورپی ملک میں مسلمانوں کی شناخت کے خلاف پابندی کا یہ نہ تو پہلا اقدام ہے اور نہ ہی اسے آخری اقدام قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی ممالک بشمول فرانس میں پچھلے چند سال سے جو انتہا پسندانہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان اقدامات کا تعلق چاہے فرانسیسی رسائل و جرائد مثلاً چارلی ایبڈو میں نبی کریمؐ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہو یا پھر سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات ہوں یا پھر مسلمانوں کے خلاف اپنایا جانے والا معاندانہ اور نفرت پر مبنی رویہ ہو ان تمام واقعات سے مغرب کا اسلام مخالف مکروہ چہرہ وقتاً فوقتاً آشکارہ ہوتا رہتا ہے۔ گوانتا نامو بے، ابو غرائب اور بگرام میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے منتقمانہ رویوں سے قطع نظر مغربی طاقتیں اب اسکارف، عبایا اور ڈاڑھی جیسے بے ضرر اسلامی شناخت کی حامل نشانات کے پیچھے جیسے ہاتھ دھو کر پڑی ہیں اس سے نہ صرف ان کی مذہبی آزادیوں کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں بلکہ ان کا نام نہاد سیکولرازم کا بھیانک چہرہ بھی دنیا پر عیاں ہورہا ہے۔