…!!انتظار ہے اس وقت کا جب

456

حکومت اور مراعات یافتہ طبقے کو ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں ہوا کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے لیے بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ بہت کم ماہانہ آمدنی والے عوام ہی کے لیے نہیں متوسط طبقے کے لیے بھی اس بار گراں سے نبھا ممکن نہیں رہا۔ عوام کو سیاسی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ سڑکوں پر نہیں آئے اور اب یہ صورت حال ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی کال کے بغیر لوگ اپنے طور پر گھروں سے نکل آئے ہیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں آئے روز بہت جذباتی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ پہلے سے چاہتے ہیں کہ انتشار کو ہوا دی جائے اور پاکستان جتنا غیر مستحکم ہو سکتا ہے اسے کیا جائے، یہ کوشش اندرونی اور بیرونی حلقوں کی طرف سے کی جا رہی ہے مگر حکومت کو ابھی تک صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں مراعات یافتہ طبقے کی بے حسی پر خاموشی‘ تکلیف دہ ہے یہ طبقہ جانتا نہیں کہ عوام کو اگر جینے کی سہولت نہ دی گئی تو پھر یہ بھی چین سے نہیں رہ سکے گا۔ عوام کا ریلہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا پہلی بار عوام بھی منظم ہو رہے ہیں اور لگتا ہے ان میں مزید ظلم سہنے کی سکت نہیں رہی۔ حکومت کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں رہے گا کہ وہ

مراعات یافتہ سے ان کی وہ مراعات واپس لے، جس کے لیے عوام کا خون چوسا جاتا ہے۔ وہ ان طبقوں کی گردن پر ہاتھ ڈال کر ان سے وہ سارے واجبات وصول کرنا جانتے ہیں جن کی وجہ سے سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اگر اس غیرہموار نظام پر نظرثانی کی جائے تو عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے ورنہ ایک وقت آئے گا اور مجھے وہ زیادہ دور نہیں لگتا جب ان کی نیندیں چرانے والے خود بھی چین کی نیند نہیں سو سکیں گے۔

بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟ کون سے فیول پر کون سی ایڈجسٹمنٹ؟ کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟ بجلی کے یونٹس کی قیمت پر کون سی ڈیوٹی اور کیوں؟ کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ‘ بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟ یہ سوال نہیں بلکہ عوام کی بے چینی ہے اس کا اندازہ ضرور ہوتا ہے گزارش صرف اتنی ہے کہ جو ادارے خسارے میں جا رہے ہیں ان کے کئی سو ارب کا خسارہ عوام سے وصول نہ کیا جائے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں کا ہے عوام تو درکنار خواص بھی بلبلا اٹھے ہیں۔ ہزاروں میں تنخواہ لینے والوں کا بل بھی ہزاروں میں آتا ہے تو وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں چنانچہ اس کے نتیجے میں لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ایک خاندان کے سربراہ نے شدید پریشانی کے عالم میں پہلے اپنے بچوں کو جان سے مارا اور اس کے بعد خودکشی کر لی۔ یاد رکھیں اور اس وقت سے ڈریں جب لوگ خود کو نہیں ماریں گے بلکہ ان کا ٹارگٹ کوئی اور ہو گا‘ ان دنوں جتنی شدید گرمی پڑ رہی ہے اور حبس کا جو عالم ہے اس کے مداوے کے لیے گھر میں اگر دو پنکھے بھی چلتے ہیں اور ایک دو بلب بھی روشن ہوتے ہیں تو اس کا بل بھی پندرہ بیس ہزار ماہوار تنخواہ لینے والے کے لیے یہ پہاڑ ہے جو اس کے لیے سر کرنا ممکن نہیں حکومت نہ صرف بجلی کے بلوں بلکہ روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتیں اعتدال میں لائے اور صرف یہ نہیں بلکہ تنخواہوں میں بھی اضافہ کرے جن لوگوں کو بجلی کے بل ہی نہیں آتے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے متقدر طبقوں کی آسائش کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں کم از کم وہی ختم کر دیں یاد رکھیں یہ لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے۔