سید علی گیلانیؒ، صبر و استقامت کا روشن استعارہ

607

ستمبر کئی حوالے سے اہم مہینہ ہے اس مہینے میں آج سے اٹھاون سال پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی بھرپور جنگ ہوئی تھی جس میں پاکستان کے پلہ بھاری رہا تھا اور بھارت جنگ بندی کی اپیل لے کر اقوام متحدہ پہنچ گیا تھا۔ اس جنگ کی وجہ تنازع کشمیر تھا پاکستان کمانڈو ایکشن کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانا چاہتا تھا۔ اس نے ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کے خفیہ نام سے مقبوضہ کشمیر میں فوجی کارروائی شروع کی تو بھارت نے پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لیے اپنی پسند کا محاذ کھول دیا اور بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھڑ گئی لیکن اس جنگ میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ یہی مہینہ تھا نہ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی وفات حسرت آیات کا بھی ہے وہ دو سال قبل اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو ہم سے جدا ہوگئے تھے لیکن ان کی یاد بدستور ہمارے دلوں میں فروزاں ہے اور دو سال کیا دو سو سال بعد بھی آنے والی نسلوں خصوصاً اہل کشمیر میں ان کی یاد اسی طرح جگمگاتی رہے گی۔ سید علی گیلانی محض ایک فرد کا نام نہیں وہ حریت کی عدیم النظیر تحریک آزادی کی بے مثال جدوجہد اور صبرو استقامت کا ایک ایسا استعارہ ہیں جو ہمیشہ روشن رہے گا وقت کے ساتھ اس کی روشنی بڑھتی رہے گی کم نہیں ہوگی۔ بلاشبہ انسان فانی ہے وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر اللہ کی راہ میں شہید ہو کر یا طبعی موت سے ہمکنار ہو کر دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کی حسنات و سیئات باقی رہتی ہیں اور دنیا میں تادیر ان کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں، آدمی کے نیک اعمال کو ہی صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے وہ خلق خدا کی بھلائی کے لیے جو بھی نیک عمل کرتا ہے مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے اور لوگ اسے یاد کرکے حوصلہ پکڑتے ہیں۔ سید علی گیلانی بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جو ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کا سب سے بڑا نیک عمل آزادی کے لیے ان کی وہ پرعزم جدوجہد ہے جو ان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ مرنے کے بعد بھی بھارت کے لیے خوف کی علامت بنے رہے۔ اس کے کارندے ان کی میت کو لواحقین سے چھین کے لے گئے اور راتوں رات دفن کردیا۔ بھارت نے اہل کشمیر کو نماز جنازہ پڑھنے اور سوگ منانے سے روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگادیا۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کردی لیکن سوگ کو وہ پھر بھی نہ روک سکا۔ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں آزاد کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں ان کی موت کا سوگ منایا گیا اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں دو قبروں پر پہرہ لگا ہوا ہے ایک قبر شیخ عبداللہ کی ہے جس نے اپنے ذاتی اقتدار کے لیے بھارت سے کشمیر کا سودا کرلیا تھا اور بھارت کو ڈر ہے کہ کہیں لوگ اس کی قبر پر جوتے برسانا شروع نہ کردیں۔ دوسری قبر سید علی گیلانی کی ہے جس پر پہرہ اس لیے لگایا گیا ہے کہ کہیں لوگ اسے مرجعِ خلائق نہ بنادیں۔
سید علی گیلانی بے شک مقبوضہ کشمیر میں مدفون ہیں لیکن وہ ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے دل میں بستے ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر کشمیری تو تھے ہی لیکن وہ ہم پاکستانیوں سے بڑھ کر ایک سچے اور کھرے پاکستانی بھی تھے اور ان پاکستانیوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھے جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے کشمیر کاز سے بیوفائی کرنے اور بھارت سے دوستی گانٹھنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ سید علی گیلانی اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی یہ آواز بدستور فضا میں گونج رہی ہے۔
اسلام کے رشتے سے ہم پاکستانی ہیں
پاکستان ہمارا ہے ہم پاکستانی ہیں
سید گیلانی کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی جس میں کچھ بھی چھپا ہوا نہیں تھا۔ انہوں نے اسے آپ بیتی کی شکل میں ایک دستاویز بنادیا تھا۔ یہ آب بیتی ’’ولر کنارے‘‘ کے زیر عنوان دو ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے پروفیسر خورشید احمد نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ولر کنارے‘‘ ایک ایسی سوانح حیات ہے جس میں سید علی گیلانی کی مقصدیت سے بھرپور ہنگامہ خیز زندگی جھلکتی ہے اور اس کے آئینے میں پوری کشمیری قوم کی روح پرور اور ایمان افروز مگر نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ گیلانی صاحب نئی نسل کے لیے ایک رول ماڈل ہیں اور ’’ولر کنارے‘‘ اس ماڈل سے استفادے کے لیے ایک مفید مینول (MANUAL) کا درجہ رکھتی ہے۔
سید علی گیلانی نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا۔ درس و تدریس کے دوران جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے تو جماعت نے انہیں اس طرح اپنی طرف کھینچا جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ وہ معلمی کا پیشہ چھوڑ کر ہمہ وقت جماعت اسلامی کے ہوگئے۔ 1953ء میں انہیں جماعت اسلامی کا رکن بنالیا گیا اور اہم جماعتی ذمے داریاں ان کے سپرد کردی گئیں۔ گیلانی صاحب کا دل تو کشمیر کی آزادی میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ بھارت آخر کب تک انہیں برداشت کرتا۔ آخر 28 اگست 1962ء کو انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ بھارتی ایجنٹ جیل میں ان سے ملاقاتیں کرکے انہیں ورغلاتے رہے۔ انہیں بھارت کے ساتھ وفاداری کی شرط ہر ماہ بھاری وظیفہ دینے کی پیش کش بھی کی گئی۔ ان سے کہا گیا کہ بے شک وہ جماعت اسلامی میں رہیں حکومت پر تنقید بھی کریں لیکن کشمیر پر بھارت کے تسلط کو متنازع نہ بنائیں اور بھارتی یونین سے اندر رہتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے پرکشش وظائف اور مراعات کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ راوی کا بیان ہے کہ گیلانی صاحب نے اس پیش کش کا بڑا خوبصورت جواب دیا انہوں نے کہا ’’میں تو اپنی جان و مال کا سودا اپنے رب سے کرچکا ہوں میں بکائو مال نہیں ہوں‘‘۔ کانگریسی حکومتیں کشمیری لیڈروں کے ساتھ یہی طریقہ واردات استعمال کرتی تھیں۔ ان کا کشمیری لیڈروں سے کوئی لمبا چوڑا مطالبہ نہیں ہوتا تھا بس ایک گزارش ہوتی تھی کہ کشمیر پر بھارت کی عملداری کو چیلنج نہ کیا جائے، بے شک اس پر کڑی تنقید کی جائے، بھارتی فوج کے مظالم کو بھی نمایاں کیا جائے لیکن ’’ریڈ زون‘‘ میں دخل اندازی نہ کی جائے، بہت سے کشمیری لیڈر اس ٹریپ میں آجاتے تھے اور ان پر وظائف اور مراعات کا دروازہ کھل جاتا تھا۔ ان پر اور ان کے خاندان پر مراعات اور عنایات میں جوں جوں اضافہ ہوتا، بھارت پر ان کی تنقید دم توڑتی چلی جاتی۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی حربہ تھا جس نے کتنے ہی کشمیری لیڈروں کے پَر کتر دیے، لیکن سید علی گیلانی اور ان کے رفقا پر یہ جادو نہ چل سکا۔ گیلانی صاحب بار بار گرفتار ہوتے اور جیل جاتے رہے۔ انہوں نے اپنی عمر کا طویل حصہ جیلوں میں گزارا لیکن کشمیر کی آزادی کے موقف پر کبھی کوئی لچک نہیں دکھائی۔
مقبوضہ وادی میں آزادی کی مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو سید گیلانی نے برملا اس کی حمایت کی اور واشگاف انداز میں کہا کہ بھارت کے غیر جمہوری اور جارحانہ رویے نے کشمیری نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا ہے اب اہل کشمیر کے لیے مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس جدوجہد کو سیاسی حمایت فراہم کرنے کے لیے آل پارٹیز حریف کانفرنس کی بنیاد رکھی اور ایک سمجھوتے کے تحت جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی۔ وہ حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلسل آواز بلند کرتے رہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے قبضے سے صرف آزاد ہی نہیں کرانا چاہتے تھے بلکہ اسے پاکستان کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچتے تھے اور پاکستان بھارت محاذ آرائی کی صورت میں ان کی ہمدردیاں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ 1995ء میں معرکہ کارگل پیش آیا اور پاک فوج نے مجاہدین کے ساتھ مل کر کارگل میں اُن بھارتی چوکیوں اور بنکروں پر قبضہ کرلیا اور بھارتی فوج سردیوں میں خالی کرکے نیچے چلی گئی تھی۔
بھارت کو جوں ہی اس قبضے کی اطلاع ہوئی وہ جنگ پر آمادہ ہوگیا اور اپنی بری اور فضائی افواج کو اس جنگ میں جھونک دیا۔ یہ جنگ کوئی دو مہینے چلی اور فریقین کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ بالآخر امریکا نے بیچ بچائو کراکے جنگ ختم کرادی اور پاکستان کو کارگل خالی کرنے پر مجبور کردیا۔ سید گیلانی اس جنگ میں پاکستان کو حق پر سمجھتے تھے۔ وہ پاکستان کی سیاسی عسکری قیادت سے ہمیشہ یہ توقع وابستہ کیے رہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر دلیرانہ طرز عمل اختیار کرے گی اور بھارت کو پسپا ہونے پر مجبور کردے گی۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ پاکستانی قیادت اپنی بزدلی اور مصلحت پسندی کے سبب کشمیر حاصل کرنے کے کئی مواقعے گنوا چکی ہے لیکن اس کے باوجود اس سے ناامید نہیں تھے۔ پاکستان ان کا پہلا اور آخری آپشن تھا وہ اس سے کیسے ناامید یا مایوس ہوسکتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان ہمت کرے اور طاقت آزمائے تو کامیابی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ 5 اگست 2019ء کو جب بھارت نے اپنے ہی آئین کو پائوں تلے روندتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا اور کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے پورے مقبوضہ علاقے میں غیر معینہ عرصے کے لیے کرفیو لگا کر بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ منقطع کردیا تو سید گیلانی نے انتہائی اضطراب کے عالم میں دنیائے اسلام اور خاص طور پر پاکستان کے نام ایک ایس او ایس کال جاری کی واضح رہے کہ یہ کال اس وقت جاری کی جاتی ہے جب بحری بیڑہ سمندری طوفان میں گھر جائے اور بیرونی امداد کے سوا اس کے بچائو کی صورت باقی نہ رہے۔ سید علی گیلانی محسوس کررہے تھے کہ اہل کشمیر کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے اگر پاکستان ان کی مدد کو نہ آیا تو بھارت انہیں کچا کھا جائے گا۔ پاکستان کی عسکریت نے بظاہر اس کال کا بڑا حوصلہ افزا جواب دیا۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے دفاع کے لیے آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے۔ اس بیان سے کشمیریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ سمجھے کہ پاکستانی فوج ان کی مدد کو آرہی ہے۔ چناں چہ سرینگر میں راتوں رات پاک فوج کے حق میں خیر مقدمی بینرز لگ گئے اور ’’پاک فوج زندہ باد‘‘ کے نعروں سے فضا گونجنے لگی۔ کشمیری انتظار ہی کرتے رہے اور پاک فوج نے آخری کیا پہلی گولی چلانے کی بھی زحمت نہ کی۔
سید علی گیلانی مایوس ہونے والے آدمی نہ تھے۔ وہ مایوسی کو کفر سمجھتے تھے۔ وہ دو سال پہلے اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ ان کی نگاہیں پاکستان کی جانب لگی ہوئی تھیں اور وہ پاکستان کی قیادت خاص طور پر فوجی قیادت سے کسی فیصلہ کن اقدام کی توقع کررہے تھے۔ پاکستان جب تک کشمیر حاصل نہیں کرلیتا ان کی روح بے چین و مضطرب رہے گی۔