نیپرا، پیمرا اور اوگرا سول نافرمانی کا پیش خیمہ

783

خاکم بدہن اللہ نہ کرے میری تحریر میرے عنوان کی تعبیر ہو، مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر یہ تینوں ادارے ملک میں ایک بڑے فساد کی کلید اوّل بنیں گے کیونکہ ان تین میں سے دو ادارے نیپرا اور اوگرا ملک میں بڑھتی مہنگائی کے ذمے دار اور فیصلہ ساز ادارے ہیں ان دونوں کے ذمے ہر پندرہویں اور ماہوار ملکی معیشت کو گردش دینے والے پہیوں گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ کا اختیار دیا گیا ہے گو کہ یہ ادارے حکومت وقت کی دی گئی ایس او پی اور ہدایت کے مطابق ہی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن دید و شنید یہی ہے کہ ان کی طرف سے ایسی کوئی منصوبہ بندی کبھی نہیں آئی جو گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کو سہ ماہی استحکام اور حکومت وقت کو محصولات جمع کرنے کا کوئی ایسا متبادل راستہ تجویز کرتیں جو مزکورہ تینوں اشیاء کے نرخوں میں بار بار اضافے کے باعث مہنگائی کی افزائش اور اسے کھاد دینے کے مترادف ہے۔ سب سے پہلے نیپرا کی بات کر لیتے ہیں آپ اپنے گیس، بجلی کے استعمال میں چاہے کتنی کٹوتی کر لیں اس کے یونٹ حتی المقدور گزشتہ ماہ سے کم بھی کر لیں اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ بھی جائے تو بھی آپ کا بل گزشتہ سے زیادہ ہی ہوتا ہے مثلاً شہر کراچی میں ماہ جون میں 967 یونٹ کا بل 42,010 روپے، جولائی 923 یونٹ 41,046 روپے اور اب اگست میں یہی بل 639 یونٹ کے لیے 42,322 روپے کا ہے یعنی ماہ اگست میں 228 یونٹ کمی کے باوجود شرح اضافہ 22.79 پیسے اور 34.41 فی صد ہے اور ہم اب بھی کے ای کے واجبات فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ان کے دو ماہ یعنی جولائی اگست 2023 کے مقروض ہیں اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں ہم نے ابھی تک ستمبر 2022 تک کی ہی ادائیگی کی ہے۔ ماہ اگست کے بل میں کے ای نے tariff adjustment/billing کے نام سے اپنے ہر صارف سے اچھی خاصی رقم وصول کی ہے۔
گیس کے بلوں میں اختصار کے ساتھ جنوری تا جون 2023 فی مکعب فٹ گیس میں 11.05 روپے اور 25.89 فی صد کا اضافہ ہے۔ سیدھے الفاظ میں اسے ظلم نہیں پاکستانی عوام کا قتل قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ سارے واجبات عام صارفین سے وصول کیے گئے ہیں جبکہ ملک کی اشرافیہ اب بھی فری گیس، بجلی اور پٹرول کی مراعات سے مستفیض ہو رہی ہے یہ عدم مساوات عام افراد کی بے چینی میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے اور کچھ بعید نہیں کے یہ لاوا کبھی پھٹ پڑے اور سارا نظام ہی تلپٹ ہو جائے جس کا آغاز ہو چکا ہے اخبارات میں شائع صرف یہ ایک خبر کافی ہے۔ ’’روالپنڈی میں بجلی کی قیمت میں خوفناک اضافے کے خلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے، کہوٹا سب ڈویژن آفس پر دھاوا، آزاد کشمیر میں مساجد سے بجلی کے بل نہ بھرنے کے اعلانات، ایکشن کمیٹی کا قیام، بلوں سے تمام ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ اور احتجاج جاری رکھنے کا عزم اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کا نرخوں میں اضافے پر عملدرآمد فوری روکنے کا حکم‘‘ یہ چنگاری فی الوقت چھوٹی مگر ایک بڑی آگ کا موجب بن سکتی ہے اللہ رحم فرمائے ابھی تو صرف ایک چھوٹا شہر جاگا ہے کچھ بڑے جاگنے کے قریب ہیں۔
مذکورہ مظالم کے بعد اوگرا پر بات کرنے کی راقم میں کوئی سکت اس لیے نہیں کے پٹرولیم مصنوعات پر ان کا پندرہ روزہ اضافہ پاکستانی غلاموں پر اپنے بیرونی آقاؤں کے حکم کی تعمیل کا لازمی عنصر ہے ہماری بیرونی امداد، قرضے درآمدات و برآمدات، دوستی و دشمنی، داخلہ اور خارجہ پالیسی حتیٰ کہ ثقافت و معاشرت سب کچھ اسی کے مرہون منت ہے یہی نہیں ہمیں مذہبی رواداری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ڈکٹیشن بھی انھی سے لینا پڑتا ہے جس کی مثال ملک میں قادیانیوں کی بڑھتی شورش اور جڑانوالہ واقعہ ہے۔ ہر کسی نے اس واقعے کی مذمت کی جو کرنی بھی چاہیے تھی تاہم ہمارے کان اس ایک جملے کے لیے ہنوز ترس رہے ہیں کہ کوئی ایک تو یہ کہتا کے اقلیتوں کے جان مال اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ ضروری ہے مگر اقلیتوں کی طرف سے بھی کی جانے والی ہر شرارت اور تخریب کاری اور ناموس قرآن و رسالت کی کسی کوشش کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا اور بحیثیت پاکستانی ان سے ملکی قوانین کے مطابق سختی سے نبٹا جائے گا۔
آخر میں کچھ گزارشات ’نیپرا‘ سے متعلق: اس ادارے نے آزادی صحافت کے نام پر جو گل کھلائے اس پر تو کئی کالم لکھے جا سکتے اور لکھے بھی گئے ہیں مگر عدالتوں کے باہر نصب مجسمے کی آنکھوں پر بندھی پٹی نے جس طرح ہمارے نظام عدل کو رو بہ زوال کیا ہے ہمارا یہ ادارہ بھی اپنے آنکھوں پر لگی عینک اور کانوں میں پڑے آلے کے باعث سننے اور دیکھنے سے قاصر ہے آج ہم ان نجی چینلوں پر نشر ہونے والے نکاح طلاق، عشق مشک، شام اور جام، بد تہذیبی، بے ادبی اور خواتین کے لباس اور دوپٹوں سے عاری ڈرامے بے ہودہ مکالمے اور ناچ گانے سے پر اشتہارات کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان کی عاقبت نااندیش، غیر میعاری اور غیر مصدقہ رپورٹنگ کی بات کریں گے جو وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں۔
’پیمرا‘ کس طرح ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہا ہے یہ بات عجیب ہے مگر کل ضلع بٹ گرام کی تحصیل آلائی میں چیئر لفٹ میں پھنسے آٹھ افراد کو بچانے کی براہ راست نشریات اور اس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر چلنے والے تبصرے اس کا شاخسانہ ہے جس کی واحد وجہ پیمرا کی طرف سے ملک بھر کے سو سے زائد نجی نیوز چینلوں کو اہم اور غیر اہم ملکی مفادات کی خبروں سے متعلق کسی واضح ہدایت یا ایس او پی کا پابند نہ کرنا ہے۔
کل جس طرح سارا دن اس ریسکیو آپریشن کی مسلسل کوریج کی گئی میری دانست میں وہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہ تھی کیونکہ ایک چھوٹے مگر مشکل آپریشن نے ہمارے وسائل اور بند مٹھیوں کو پوری دنیا خصوصاً ہمارے پڑوسی دشمن کے سامنے کھول کر رکھ دیا یہ وہی دشمن ہے جس نے پہلے بھی ہمیں ہماری اندرونی سازشوں کے باعث دو لخت کیا اور ہماری ناکام خارجہ پالیسی اور بزدلانہ روش کے سرکاری بیانات اور اقوام متحدہ میں منظور کشمیر کی حق خود ارادیت کی قرارداد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے آج تک ان کا حق غضب کیے رکھا اور عمرانی دور حکومت میں ایک قدم اور آگے جاکر مقبوضہ کشمیر کو اپنی ریاست کا حصہ بنا لیا اسی طرح 2005 کے زلزلے میں ہمارے محدود وسائل کو انہی چینلوں نے یہ کہہ کر آشکار کر دیا کے ملک میں موجود درجن بھر ہیلی کاپٹر زلزلے کے بے شمار متاثرین کی امداد کے لیے نا کافی ہیں اس طرح نجی چینل کے ایک معروف صحافی نے ممبئی انڈیا میں ہوئے بم دھماکے کی پریس کوریج ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے مجرم اجمل قصاب کا حسب نسب پاکستان سے ثابت کر کے دنیا کی نظروں میں ہمیں دہشت گرد ملک ثابت کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا اور ماضی قریب میں اسلام آباد میں ایک جنونی کے ہاتھوں یرغمال عورت جو اس ڈرامے کا حصہ تھی کے سامنے ہماری سیکورٹی فورسز کو پورے دن بے دست و پا دکھا کر ہمارے ان اداروں کی صلاحیتوں کا پول کھول دیا یہ اور اس طرح کی خبریں ایک طرف جہاں ملک کی بدنامی اور عوام کی مایوسی کا سبب بنتی ہیں وہیں یہ ہمارے دشمنوں کا اس بات پر راغب کرتی ہیں کے وہ اس کے طول و عرض میں موجود غداروں کے ذریعے ملک میں انارکی پھیلائیں اور اپنی دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے ہمیں دنیا بھر میں رسوا اور کمزور کریں۔
کل کے مشکل اور خطرناک آپریشن میں جھولتی ڈولی سے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا آٹھ افراد کی زندگی کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں اور نا ہی اس طویل آپریشن پر ماسوا چند کے کسی کو اعتراض ہے اور اعتراض کرنے والے بھی وہی ہیں جو ملک کو ڈیفالٹ اور سری لنکا بن جانے کی حسرت دل میں لیے بیٹھے ہیں۔
یہاں ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کی مدد اور نصرت سے کیے جانے والے اس آپریشن میں ہمارے ملک کے سیکورٹی ادارے ہوں یا عام شہری اس کامیابی کے سہرا انھی کے سر ہے جس پر ملک کے تمام محب وطن ان کے شکر گزار اور اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں ان کی سرخروئی کے لیے دعاگو ہیں۔ ہمیں چاہیے کے جس جس نے جہاں جہاں اور جب جب کسی کی مدد کی سب کا ہم کھلے دل سے شکریہ ادا کریں۔