روس یوکرین جنگ کا نیا منظر نامہ

701

امریکی محکمہ خارجہ نے ناٹو کے دو ارکان ممالک ڈنمارک اور ہالینڈ سے کہا ہے کہ جب یوکرین کے پائلٹوں کو جدید ترین امریکی لڑاکا طیاروں ایف سولہ کو چلانے کی تربیت مکمل ہوجائے گی تو تب انہیں اپنے ایف سولہ طیارے یوکرین کے حوالے کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ڈنمارک اور ہالینڈ جو یوکرین کے پائلٹوں کو ایف سولہ طیارے اُڑانے کی تربیت د ے رہے ہیں کو ان جیٹ طیاروں کی منتقلی کے لیے رسمی یقین دہانیاںدی گئی ہیں۔ امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ پائلٹوں کے پہلے سیٹ جو آٹھ پائلٹوں پر مشتمل ہے کی تربیت مکمل ہوتے ہی یوکرین اپنی ان نئی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین کے پائلٹوں کے پہلے گروپ کو ایف سولہ اُڑانے کے لیے تیار ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ امریکی ایف سولہ کی یوکرین کو فراہمی کے حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ذریعے امریکی ساختہ فوجی ساز و سامان کی دوبارہ فروخت یا منتقلی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور امریکا کا کوئی بھی اتحادی امریکی منظوری اور رضامندی کے بغیر کوئی بھی امریکی اسلحہ کسی غیر ملک کو منتقل یا فروخت نہیں کرسکتا ہے۔ یوکرین کے پائلٹوں کی تربیت کے حوالے سے گزشتہ دنوں یہ بات سامنے آئی تھی گیارہ ملکی اتحاد کی طرف سے یوکرین کے پائلٹوں کی تربیت کا آغاز اس ماہ ہونا تھا اور اس حوالے سے یہ توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ یہ پائلٹ جن کی تعداد آٹھ ہے اور جن کے ساتھ 65افراد پر مشتمل دیگر تکنیکی عملہ بھی شامل ہے 2024 کے اوائل تک تربیت مکمل کر کے تیار ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ ایف سولہ طیاروں کے لیے یوکرینی پائلٹوں کی تربیت کا پروگرام یوکرین کی درخواست پر شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد یوکرینی فضائیہ کو ہونے والے بھاری نقصانات کا ازالہ کرنا ہے جو زیادہ تر روسی طیاروں پر مشتمل ہیں۔
دوسری جانب روس یوکرین جنگ کے تناظر میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ یوکرین نے گزشتہ پیر کے روز دارالحکومت کیف کے مرکز میں ان روسی ٹینکوں، طیاروں اور لڑنے والی دیگر گاڑیوں کے جلے ہوئے ڈھانچوں کو قطار میں کھڑا کر دیا ہے جنہیں یوکرین کی جنگ کے دوران منائی جانے والے دوسرے یوم آزادی کے موقع پر عوامی نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔ دراصل یہ دن سوویت یونین سے آزادی کے بعد سے گزشتہ 32 سال سے منایا جاتا ہے جب کہ اس دن کی موجودہ اہمیت روس کے ساتھ جاری جنگ اور اس میں یوکرین کی کامیاب مزاحمت کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔ یوکرینی دارالحکومت کیف کے وسط میں کریشٹک اسٹریٹ کے ساتھ چلتے ہوئے روسی بکتر بند جنگی گاڑیوں کے جلے ہوئے گولوں اور ہارڈ ویئر کے دیگر ٹکڑوں کو ایک لمبی لائن میں فوجی پریڈ کی طرح ترتیب دیا گیا ہے۔ کیف کے مقامی رہائشی میدان جنگ کے اس اسلحے کی نمائش پر خوف کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کو یقین ہے کہ یوکرین بالآخر روس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا، گو اس شکست میں کوئی روسی علاقہ فتح کرنے کا خواب تو شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا البتہ روس کے مقابلے میں یوکرین جیسے کمزور ملک کا پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال سے اپنا موثر دفاع بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ وسطی کیف کے رہائشیوں کا تباہ شدہ روسی ہارڈویئر کو نمائش میں پیش کرنے کے متعلق کہنا ہے کہ اس سے یوکرینیوں میں لڑائی کا جذبہ بڑھے گا۔ اس نمائش سے یہ خیال بھی ظاہر ہوگا کہ یوکرینی فوج کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ (روسی) لڑائی میں کتنے برے یا کمزور ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ اس جنگ میں مغربی ممالک کی حمایت کے لیے شکرگزار ہیں اور انہیں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جنگ بہت طویل ہوگی جس کے لیے پوری یوکرینی قوم اپنی قیادت اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کیف کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کا وجدان بتاتا ہے کہ یہ طویل جنگ ان کی فتح پر منتج ہوگی۔
اسی طرح روسی جارحیت کے حوالے سے یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کی فوج کی پیش قدمی روسی بارودی سرنگوں اور اچھی طرح سے تیار دفاعی لائنوں کے ساتھ ساتھ یوکرین کی مناسب فضائی مدد کی کمی کی وجہ سے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی ہلاکتوں کی تعداد ریاستی راز ہے لیکن امریکی حکام نے گزشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے بتایا تھا کہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد تقریباً 70 ہزار ہے جن میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان زخمی ہوئے ہیں۔ یوکرین کے نقطہ نظر سے یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ یوکرین کی افواج نے مشرقی قصبے باخموت کے ارد گرد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے البتہ جنوبی محاذ پراسے کوئی بڑی پیش رفت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ اسی طرح یوکرین نے کہا ہے کہ اس کے فوجی اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم جنوب مشرقی گاؤں روبوٹائن میں بھی داخل ہو گئے ہیں جسے روس کے خلاف اس کی جوابی کارروائی میں ممکنہ طور پر ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ جب کہ دریں اثناء بلقان کے گیارہ ممالک کے رہنماؤں نے ایتھنز میں ایک سربراہ اجلاس میں یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور اس کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر علاقائی سالمیت کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہ بات بلا شک وشبہ کہی جا سکتی ہے کہ مغربی ممالک کی مسلسل پشت پناہی سے یوکرین روس کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔