پاک ایران تعلقات میں گرم جوشی

565

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ اور ان کے پاکستانی ہم منصب بلاول زرداری کے درمیان ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کے بعد دفتر خارجہ میں مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں وزراء خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی مشترکہ سرحدوں کو ’’امن اور دوستی کی سرحد‘‘ رکھیں گے کیونکہ دونوں فریق ایک پرامن مستحکم پڑوس میں باہمی دلچسپی رکھتے ہیں، ایران نے اس بات پر زور دیا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کو جلد مکمل ہونا چاہیے، یہ منصوبہ دونوں ممالک کے قومی مفاد میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق اقتصادی تعاون بات چیت کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا جس میں دونوں فریقوں نے پائیدار اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے پانچ سالہ تجارتی منصوبے کے تحت 5 بلین ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ملاقات میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ بلاول زرداری نے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی مضبوط اور مستقل حمایت پر ایرانی عوام اور قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ میڈیا کو بتایاگیا کہ مند پشین سرحدی بازار اور پولن گبڈ بجلی کے منصوبے کا افتتاح دونوں برادر ممالک کے عوام کی بہتری کے لیے باہمی تعاون کے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔ دراصل یہ منصوبہ کثیر الجہتی تعاون کو مضبوط بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ آج گوادر میں کئی اسکول، اسپتال اور گھر گھر ایران کی فراہم کردہ بجلی سے چل رہے ہیں جو دونوں ممالک کے قریبی دوستانہ تعلقات کی واضح مثال ہے جب کہ دونوں پڑوسی ممالک میں تجارت و معیشت، توانائی، ثقافت اور فنون لطیفہ میں تعاون کو وسعت دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔ توقع ہے کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی اور پائیدار اقتصادی شراکت داری پر مبنی تعلقات استوار اور مزید مستحکم ہوں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان پانچ سالہ تجارتی تعاون کا منصوبہ (2023-28) جس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ، باہمی تجارت کا ہدف 5 بلین امریکی ڈالر مقرر کیا گیا ہے کو عملی شکل دینے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، ایف ٹی اے کو حتمی شکل دینے اور ہمارے متعلقہ نجی شعبوں کے درمیان ادارہ جاتی روابط کے قیام کو ترجیحات میں شامل کرنا سرفہرست ہے۔ اسی طرح دو طرفہ اقتصادی مشاورت اور دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاملے پر پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں دوطرفہ بات چیت کا پروٹوکول بھی طے کیا گیاجب کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی جیلوں میں قیدیوں اور ماہی گیروں سے متعلق انسانی مسائل پر بھی بات ہوئی۔ بات چیت کے تحت متعلقہ جیلوں میں قید تمام سزا یافتہ افراد کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان اور ایران میں زیر حراست تمام ماہی گیروں کو رہا کرنے، ان پر عائد جرمانے کو معاف کرنے اور ان کے جہازوں کو چھوڑنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اس مفاہمت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں کی فہرست کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

مشترکہ مذاکرات میں افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے دونوں ملکوں نے افغانستان میں امن و استحکام کو آگے بڑھانے اور اپنے افغان بھائیوں کی فلاح و بہبود کو فروغ دینے کے لیے اپنی فعال مصروفیات جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی صورتحال سے پاکستان کے بعد جو ملک بطور پڑوسی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ ایران ہے یہی وجہ ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کو اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد میں یہ کہنا پڑا ہے کہ افغانستان کے اندر جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر ایران اور پاکستان پر پڑتا ہے۔ بقول ان کے افغانستان کے مسائل کا بہترین حل علاقائی فریم ورک کے اندر ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کے وفد میں ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آرمی چیف کے دورے کے دوران بات چیت کا بڑا حصہ سیکورٹی خدشات، ہماری سرحدوں اور افغانستان کے پڑوسیوں کے حوالے سے تھا۔

یہ بات لائق توجہ ہے کہ پاکستان اور ایران نے اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے انسداد کے لیے تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران اور پاکستان کو ایسے کسی بھی اشتعال انگیز اقدامات پر پابندی لگانے کے لیے بین الاقوامی فورمز پر اپنی مشترکہ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ نے مذاکرات میں فنانس سیکٹر کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی، ان کا استدلال تھا کہ دونوں ممالک کو موجودہ بینکنگ اور مالیاتی مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنا ہوں گے۔

پاک ایران دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں یہ انکشاف حوصلہ افزاء ہے کہ دونوں ممالک کی سرحد پر نئے مارکیٹ پوائنٹس اور سرحدی مقامات پر خصوصی اقتصادی آزاد تجارتی خطہ کھولنے کے بارے میں دونوں ممالک ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں جس پر عنقریب دستخط ہوں گے۔ اسی طرح ایرانی وزیر خارجہ کا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے اور ایران نے ماضی میں دہشت گردی کا جس پامردی سے مقابلہ کیا ہے اس حوالے سے بھی دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے کا اعادہ کیا ہے۔ اس ضمن میں داعش سمیت بعض دیگر دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے اس پورے خطے کو جو خطرات لاحق ہیں اس سے نمٹنے کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے خیالات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے لہٰذا توقع ہے یہ دونوں پڑوسی ممالک غیرمسلم قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں گے۔