آئی ایم ایف سے چھٹکارا کیسے؟؟

609

بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے مجبور و بے کس عوام کے ساتھ نا صرف زیادتی بلکہ یہ مرے کو سو درے کے مترادف ہے۔ حکمرانوں نے آئی ایم ایف معاہدے کی پاسداری کا عملی نمونہ پیش کر دیا مگر عوام سے کیے گئے تمام وعدے ان کے نزدیک کوئی اہمیت اس لیے نہیں رکھتے کے ان کے اپنے گھر کا دال دلیا اور ان کی شاہانہ ٹھاٹ باٹ آئی ایم ایف کے مرہونِ منت ہے۔ پاکستانی عوام سے ان کا کیا لینا دینا ہر پانچ سال بعد ان سے خود ان پر حکمرانی کے لیے ایک ووٹ ہی تو لینا ہوتا ہے جو وہ ان عوام سے مکر و فریب جھوٹے وعدے اور سہانے سپنے دکھا کر حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان، کبھی ووٹ کو عزت دو، کبھی پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں، کبھی مدینہ کی ریاست اور تبدیلی کی سیاست وغیرہ یہ وہ نعرے ہیں جس سے ملک کے سادہ لوح عوام کو ہمیشہ بے وقوف بنایا گیا ہے۔

عوام کی اسی معصومیت نے موجودہ اور سابقہ تمام حکمرانوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کے بجائے کھل کر لوٹ کھسوٹ کرنے اور اپنے اور اپنے خاندان کی دولت میں بیش بہا اضافے کا موقع فراہم کیا ہے جس کا نتیجہ پچھتر قیمتی سال گزار لینے کے باوجود ہمارا ملک ایک پولیو زدہ فرد کی طرح آج تک اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو سکا اور نا اس کی کوئی امید ہے۔ اس کی وجہ عوام خود ہیں ایسا نہیں کے ملک میں امانتدار و مخلص افراد کی کمی ہے مگر ہم کبھی ذات برادری اور عصبیت کا شکار ہوکر اور اپنے انتہائی قیمتی ووٹ کا سودا کر کے انہی چور اچکوں اور شعبدہ بازوں کے سر پر تاج شاہی رکھ دیتے ہیں نتیجہ پھر وہی پانچ سال کا رونا دھونا ہی ہماری اپنی تراشیدہ قسمت ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی یعنی 70 اور 80 کی دہائی میں مہنگائی کا جن اس لیے قابو میں رہتا تھا کے عوام اپنا حق لینے کے لیے خود ہی اُٹھ کھڑے ہوتے تھے مگر آج وہی عوام ہیں جو بارہا بجلی کے نرخوں اور پٹرول بم کی آگ میں بھی سکھ اور چین سے زندہ ہیں ان کا احتجاج بس اتنا ہے کہ وہ چند نجی چینلوں کے سامنے مہنگائی مہنگائی کا رونا رو کر اپنی دنیا میں پھر مگن ہو جاتے ہیں اور کسی چوں چرا کے روادار نہیں ہوتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عوام کو سڑکوں پر آنے سے کس نے روکا ہے؟ اور یہ کیوں حکمرانوں کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں؟ دوسری طرف حزب اختلاف اس گھسے پٹے پٹے جملے سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں کے ہم اس مہنگائی یا تیل بجلی کے نرخ میں اضافے کو مسترد کرتے ہیں الامان الحفیظ دو دنوں میں بجلی کے نرخ میں ساڑھے سات روپے اور پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں بیس روپے اضافے کو یہ قوم ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر گئی اس پر سوائے دکھ اور افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔

ایک بات سمجھ سے بالکل بالا تر ہے کہ ہمارے بڑے بڑے معیشت دانوں کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے لیے صرف یہ دو بنیادی ضرورت یعنی بجلی اور پٹرول جو مہنگائی میں اضافے کی کلید اول ہیں ہی کیوں نظر آتے ہیں کیا ہمارے پاس کوئی اور ایسا ٹول نہیں جس کی بنیاد پر ہم آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدات کو عوام کے لیے بہتر بنا سکیں اور جس کے ذریعے ملک میں افراط زر اور مہنگائی میں کم سے کم اضافہ ممکن ہو سکے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم بجائے گیس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ملک میں جاری محصولات مختلف نوع قسم کی ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کریں جسے عام آدمی کم استعمال کرتا ہے اور جس کی قیمت میں اضافے سے وہ کم متاثر ہوتا ہے محصولات کے اس اضافے کو آئی ایم ایف ٹیکس کا نام دیا جا سکتا ہے۔

بیرون ملک و اندرون ملک ہوآئی سفر پر آئی ایم ایف ٹیکس۔ نیا پاسپورٹ، اسلحہ لائسنس کے اجراء یا پرانے کی توسیع۔ ملک بھر میں پھیلے نجی سیاحتی مقامات فارم ہاوسز واٹر پارک شادی ہالز پر سالانہ بنیاد پر آئی ایم ایف ٹیکس کی وصولی۔

اول ملک میں روز مرہ استعمال اور کھانے پینے کی چیزوں پر اشتہارات کی ممانعت ہونی چاہیے اس لیے کہ ان اشتہارات کی وجہ سے ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے نیز یہ کہ روزمرہ ضرورت کی تمام اشیاء کے بارے میں ہر شخص کو مکمل آگاہی ہوتی ہے اور اسے یہ سمجھنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں رہتی کہ اُسے آٹا، نمک، تیل، صرف صابن یا شربت کون سا استعمال کرنا ہے۔

دوم یہ کہ پر تعیش اشیاء پر بھی کسی اشتہار کی مدت چھے ماہ سے زاید نہیں ہونی چاہیے اور ہر نئے اشتہار پر بھی آئی ایم ایف ٹیکس لاگو ہو۔

سوم حکومت وقت کو بھی اپنے کسی منصوبے پر بے دریغ تشہیر سے پرہیز کرنا چاہیے اور اس کے لیے صرف سرکاری ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کے پبلک سروس میسج سے اپنے منصوبوں اور کاموں کی آگاہی دینی چاہیے۔

یہ اور ان جیسے فوری اقدامات سے ہم ایک طرف اپنے ذرایع آمدن میں اضافہ اور دوسری طرف آئی ایم ایف کو ان کی اقساط کی بروقت ادائیگی کا یقین دلا سکتے ہیں اور ان نئے محصولات سے ملک کے 80 فی صد غریب عوام پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا کیونکہ وہ ان چیزوں اور چونچلوں سے بہت کم یا کبھی کبھی ہی استفادہ کرتے ہیں۔

مہنگائی کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کے بجائے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرکے انہیں کچھ ریلیف دینا چاہیے صرف اسلام آباد میں نوے ہزار سرکاری گاڑیاں ان کی ایندھن اور مرمت کا ہی تخمینہ کروڑوں نہیں اربوں میں ہے لمبی چوڑی کابینہ وزراء اور مشیران کی فوج ان کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کر کے بھی عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غریبوں کے لیے ٹارگیٹڈ سبسڈی کا طریقہ کار اپنائے اور وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا صحت و بیروزگاری کارڈ جیسا نا ہو بلکہ اس کا سیدھا اور آسان طریقہ یہی ہے کہ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے کچھ یونٹ فری اور بقایا کا کم سے کم نرخ اسی طرح تین سو، پانچ سو، اور سات سو تک والوں کے لیے بھی کچھ یونٹ فری اور بقایا کے علیحدہ علیحدہ نرخ مقرر ہوں اسی طرح موٹر سائیکل، موٹر رکشہ 660، 800 اور 1000 سی سی گاڑیاں رکھنے والوں کے لیے پٹرول کا ماہانہ کوٹا اور ان کے علیحدہ علیحدہ نرخ مقرر کیے جائیں اس کے لیے نادرا کے جاری کردہ شناختی کارڈ کو استعمال کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

ملک میں سائیکل کی صنعت کو فروغ اور کم فاصلوں کے لیے اس کے استعمال کی ترغیب دی جائے درالحکومت اسلام آباد میں بلا تخصیص کسی مخصوص گریڈ تک کے تمام سرکاری ملازمین کو سائیکل یا موٹر سائیکل کی سواری کا پابند کیا جائے اور موٹر سائیکل کی خریداری اور اس کے استعمال پر انہیں سبسڈی اور مختلف قسم کے انعامات دیے جائیں۔

ساتھ ہی عوام کے اس بھر پور مطالبے پر بھی ضرور توجہ دی جائے کی ہم ہر مشکل فیصلے کو اپنے لیے آسان کریں گے بشرطیکہ فیوڈل کلاس کو دی جانے والی تمام فری سہولتیں و مراعات کا فی الفور خاتمے کا اعلان کیا جائے ان کے گیس بجلی پٹرول ہوائی سفر ان کے بچوں کی اسکول فیس علاج معالجے کی تمام سہولتیں فوری واپس لی جائیں۔

حکومت ذخیرہ اندوزوں ناجائز منافع خوروں بے ایمان تاجروں اور بیچ کے دلالوں کو لگام ڈالے اس سے بھی مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے۔ اسمگلنگ کی روک تھام کے موثر اقدامات سرحدوں پر بنی چوکیوں چھائونیوں بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر خود کار مشینوں اور جدید ذرائع سے تمام بار بردار ٹرک ٹرالر اور ہر گزرتی گاڑیوں کی مکمل چیکنگ کے انتظامات بھی مہنگائی کنٹرول کرنے کا مثبت طریقہ ہے یہ بات تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کے ہمارے ملک کی گندم آٹا چینی خوردنی تیل گھی حتی کہ ڈالرز تک سرکاری سرپرستی میں برادر ملک افغانستان اسمگل کیے جاتے ہیں۔