پاکستان میں اسکواش کی نشاۃ ثانیہ

535

پاکستان کے اسکواش کے ابھرتے ہوئے نوجوان سپوت حمزہ خان نے گزشتہ اتوار کو آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں مصر کے محمد زکریا کو 3-1 سے شکست دے کر 37 سال بعد ورلڈ جونیئر اسکواش چمپئن شپ کا ٹائٹل پاکستان کے نام کردیا ہے۔ یاد رہے کہ آخری بار کسی پاکستانی کھلاڑی عامر اطلس نے 2008 کے فائنل میں جگہ بنائی تھی جب کہ پاکستان کی طرف سے یہ ٹائٹل آخری بار جان شیر خان نے 1986 میں جیتا تھا۔ اپنی جیت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، حمزہ خان جنہوں نے 2020 میں برٹش جونیئر اوپن اسکواش چمپئن شپ میں انڈر 15 کا ٹائٹل جیتا تھا نے اپنے کوچ، منیجرز اور والدین کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ صدر عارف علوی اور وزیراعظم شہباز شریف نے 37 سال بعد عالمی ٹائٹل پاکستان واپس لانے پر حمزہ کو مبارک باد تو دی ہے لیکن تادم تحریر حکومت کی جانب سے نہ تو ان کے لیے مالی تعان کا کوئی اعلان ہوا ہے اور نہ ہی صدر یا وزیر اعظم نے اس قابل فخر سپوت کو اس کے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کرائی ہے۔

حمزہ خان کا تعلق دنیائے اسکواش میں مشہور پشاور کے نواحی علاقے نودیہہ پایان (نوے کلے) سے ہے۔ وہ اسکواش کے ایک مضبوط شجرہ نسب جس سے روشن خان، ہاشم خان، اعظم خان، محب اللہ، قمر زمان، جان شیر خان اور جہانگیر خان کا تعلق ہے کے خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ اسکواش کے سابق عالمی نمبر 14 شاہد زمان ان کے ماموں ہیں اور لیجنڈ قمر زمان ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ شاہد زمان کی مرحومہ بیوی حمزہ خان کے والد نیاز اللہ کی بہن تھیں۔ یہ بات دلچسپی کا باعث ہے کہ حمزہ خان کے والد نیاز اللہ خود بھی اسپورٹس مین رہتے ہوئے انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی کھیلوں میں اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والی خبروں کے مطابق نیاز اللہ بطور والد حمزہ خان کو پریکٹس کے لیے خود ہاشم خان اسکواش کمپلیکس لے جاتے تھے جہاں وہ خود ان کی کوچنگ کرتے تھے۔ حمزہ خان بعد میں پی اے ایف اکیڈمی پشاور کے انڈر 11 ٹرائلز میں شامل ہوا جہاں اس نے باقی تمام سات لڑکوں کو شکست دی جس کے نتیجے میں انہیں پاکستان انڈر 11 چمپئن شپ میں نہ صرف حصہ لینے کا موقع ملا بلکہ وہ یہ چمپئن شپ جیتنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ اس چمپئن شپ کو جیتنے کے بعد انہوں نے اسکواش کو بطور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس سے اسکواش اس نوجوان کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا۔

حمزہ خان نے اپنی کامیابی کے سفر کے بارے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے روزانہ بلا ناغہ صبح کے وقت ایک انسٹرکٹر کے تحت شدید جسمانی تربیت سے گزرتے تھے۔ پھر اسکول کے بعد وہ دوبارہ اکیڈمی جاتے تھے اور دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک یہ تمام ٹریننگ اور پریکٹس کرتے تھے۔ بقول ان کے جب انہوں نے 2016 میں چیف آف ائر اسٹاف انڈر 11 ٹورنامنٹ جیتا تھا تو انہیں پاکستان اسکواش فیڈریشن نے اسلام آباد میں تربیت کے لیے بلایا تھا۔ انٹرویو کے دوران حمزہ نے کہا کہ ان کا حتمی مقصد بڑے ٹائٹل جیتنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا حتمی مقصد برٹش اوپن اور ورلڈ اوپن کو پاکستان میں واپس لانا ہے۔ حمزہ عالمی کپ کا فائنل اقبال کے شاہین کے مصداق جھپٹ کر پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا کے فلسفے کے مطابق پہلا سیٹ 12-10 سے ہارنے کے باوجود مقابلے میں نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ 71 منٹ لگاتار فرنٹ فٹ پر جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے زکریا کو زیر کر کے3-1 سے تین دہائیوں بعد عالمی ٹائٹل بھی پاکستان کے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔

کھیلوں کے مبصرین کا کہنا ہے کہ حمزہ کا ورلڈ جونیئر ٹائٹل تک کا سفر ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ ابتداء میں اس کے پاس بہت کم مالی مدد تھی اور نہ ہی اس کی پشت پناہی کرنے والے اسپانسر تھے۔ لیکن اسے اپنی صلاحیتوں پر بہت بھروسا تھا اور اس کے والد نے اسے یقین دلایا تھا کہ اس کی محنت کی وجہ سے اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ حمزہ خان نے اپنی کامیابی کے بعد سجدہ شکر کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے بات چیت میں کہا ہے کہ ’’میں پاکستان اسکواش فیڈریشن اور خاص طور پر پاک فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا، اور میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں، اور ان شاء اللہ اگر مجھے مستقبل میں بھی اسی طرح کا تعاون ملتا رہا تو میں ہر جگہ پاکستان کا سر فخر سے بلند کروں گا‘‘۔

دریں اثنا، حمزہ کے کوچ طاہر اقبال نے کہا ہے کہ حمزہ کے لیے ورلڈ کپ کا ٹائٹل جیتنا بہت بڑی کامیابی ہے اور اس سے حکومت اور پی ایس ایف کی توجہ پاکستان کے باصلاحیت کھلاڑیوں کی طرف مبذول ہو گی۔ دوسری جانب یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان سپر لیگ کی فرنچائیز پشاور زلمی نے حمزہ خان کے لیے 10 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ پشاور زلمی کا کہنا ہے کہ حمزہ خان کی کامیابی پر پوری قوم کو فخر ہے۔ حمزہ خان کی یہ کامیابی چونکہ پاکستان میں اسکواش کی ترقی اور فروغ کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی ہے لہٰذا توقع ہے متعلقہ حکومتی ادارے بھی نہ صرف حمزہ خان جیسے نوجوانوں کی سرپرستی پر توجہ دیں گے بلکہ عمومی طور پر بھی ملک اور بالخصوص خیبر پختون خوا میں اسکواش کی نشاۃ ثانیہ کے لیے درکار اقدامات ترجیحی طور پر اٹھائیں گے۔