قرآن کی بیحرمتی، ٹھوس اقدامات کی ضرورت

460

سوئیڈن میں قرآن پاک کی بیحرمتی کے خلاف مسلم ملکوں کا ردعمل حسب سابق جاری ہے۔ ایسے موقعے پر ماضی میں بھی ردعمل ہوتا رہا ہے۔ تازہ ترین واقعے پر پاکستان سمیت عراق، سعودی عرب، ایران، ترکی و دیگر ممالک اسلامیہ کے علاوہ مغربی و یورپی ممالک کے اہل ضمیر رہنمائوں نے بھی اس دلخراش واقعے کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی نے اپنے اجلاسوں میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے ان واقعات پر پلان آف ایکشن کی منظوری دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے قابل مذمت واقعات کا تسلسل دراصل مغرب کے انتہا پسند اسلام دشمن عناصر کا روز اول سے اسلام سے تعصب کا نتیجہ ہے۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز
چراغ مصطفیؐ سے شرار بولہبی

ماضی میں صلیبی جنگوں کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مقدس شعائر کی تضحیک، نفرت، استہزا اس سلسلے کی کڑی ہے کبھی خاکوں کے ذریعے توہین و گستاخی کی جاتی ہے، کبھی کپڑوں کے ڈیزائن، کبھی شیطانی آیات کا مصنف اسلام کے خلاف تعصب میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن پاک کا متبادل تیار کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ان تمام شرمناک و قابل مذمت سرگرمیوں میں مغرب کی حکومتوں کے رویے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے امریکا نے بھی قرآن پاک نذر آتش کرنے کی اجازت دینے پر سوئیڈن حکومت کی مذمت کی ہے، جب کہ اسلامی تعاون تنظیم پاکستان سمیت دیگر رکن ممالک کے وفد نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کرکے انہیں اس واقعے پر مسلم ممالک کے ردعمل سے آگاہ کیا ہے۔ ان تمام کوششوں و مذمتی ردعمل و قراردادوں کے باوجود یہ شرمناک سلسلہ جاری ہے۔ مسلم ممالک خصوصاً او آئی سی کو اپنے کردار و کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ اب تک ایسے واقعات کے تدارک کے لیے کوئی قابل عمل پیش رفت کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے، جب کہ ان واقعات کے ازالے کے لیے ہمارے علما کرام، محققین، سیرت نگار، دانشور نے ہر دور میں علمی سطح پر اسلام، پیغمبر اسلام و شعائر اسلام کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا بھرپور دلائل و مضبوط کردار سے جواب دیا ہے اور اپنے دلائل سے اسلام کی سنہری و زریں تاریک کے درخشندہ پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے لیکن مغرب میں انتہا پسند اسلام کی روشن تاریخ کو نظر انداز کرکے محض تعصب و اسلام سے بغض و کینہ و مسلمانوں سے نفرت کی مہم کے تحت ذرائع ابلاغ سے منظم مہم چلارہے ہیں، نام نہاد و آزادی اظہار کے پردے میں جاری یہ مہم مسلم دنیا میں انتشار و اشتعال پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہے اور دنیا بھر کی مسلم تنظیموں، علما، دینی جماعتوں و عوام میں بے چینی، غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مغربی حکومتوں کو آزادی اظہار کا سہارا لے کر ایسے عناصر کو مزید مہلت نہیں دینا چاہیے جو دنیا کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

اسلام ایک امن پسند، رواداری و باہمی یک جہتی کو فروغ دینے والا دین ہے جو غیر مسلم کو بھی آزادی اظہار کا حق دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کا یہ روشن پہلو ہے کہ وہ انسان کے عقیدہ و ایمان پر جبر نہیں رکھتا، جب کہ حقائق و دلائل کی روشنی میں حق کا راستہ اختیار کرنے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس اظہار آزادی کو نفرت، تعصب کی بنیاد پر پروپیگنڈے کی اجازت عالمی امن کو تہہ و بالا کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی 1948ء میں ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ منظور کیا۔ اس کی رُو سے مذہب کے حق کو انسان کا بنیادی حق اور ہر مذہب کے تقدس کو محترم قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا مغربی ممالک میں پیش آنے والے گستاخانہ واقعات انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے بھی خلاف ہیں جس کا اقوام متحدہ کو بھی نوٹس لینا چاہیے اور ایسے ممالک جہاں ایسے واقعات کی حکومتی سطح پر اجازت ہو ان ممالک کے خلاف ممکنہ کارروائی کرنا چاہیے تا کہ یہ شرمناک سلسلہ بند ہوسکے۔ واضح ہو کہ اسلام واحد دین ہے جو اقوام متحدہ کے مجوزہ امن چارٹر سے پہلے ہی خطبہ حجتہ الوداع پر پیغمبرؐ کے ذریعے عالمی امن، اظہار ضمیر و عقیدہ، رواداری و انسانیت پر مبنی حقوق انسانیت کا چارٹر پیش کرچکا ہے اور اسلام ادیان سابقہ، سابقہ انبیا کرام، مقدس شخصیات کے احترام کا درس دیتا ہے۔ مذہب مخالف سے مکالمہ، رواداری کی ہدایت کرتے ہوئے مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ برائی کو احسن طریقے و بھلائی سے روکو۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ او آئی سی حرکت میں آئے، ان واقعات کے ہمیشہ کے لیے دروازے بند کرنے کے لیے ٹھوس و قابل عمل اقدامات اٹھائے، تمام مسلم ممالک اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے ایک پلیٹ فارم سے او آئی سی کے ذریعے اتحاد کا مظاہرہ کریں اور علمی و دینی علما کرام و جماعتیں عالمی رسائل و جرائد و دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلام کے اصولوں کے مطابق ایسے تمام امور پر اسلامی احکامات و مسلم جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کریں۔ راقم الحروف اپنے سابقہ مضامین میں اس حوالے سے کئی قابل عمل تجاویز پیش کرچکا ہے جو آج بھی حکومت کے لیے قابل غور ہیں۔