حکومت آئی ایم ایف معاہدے کی تباہ کاریاں

594

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے بجلی مہنگی کرنا آئی ایم ایف کی شرط اور ہماری مجبوری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بجلی مہنگی کر دی گئی۔ بجلی کے بعد گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ تو اب لازمی ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت اور ایم ایف کے درمیان معاہدے پر بغلیں بجائی جا رہی ہیں اس میں پاکستان کے عام آدمی کے لیے خوش خبری نہیں گویا کہ یہ معاہدہ عوام کے لیے مہنگائی کا ایک اور تازیانہ ہے۔ آئی ایم ایف نے تین ارب ڈالر قرض امریکا کی مداخلت پر بے سبب نہیں دیا ہوگا۔ پاکستان نے بیک وقت امریکا اور آئی ایم ایف کی نجانے کون سی شرائط تسلیم کی ہوں گی۔ اسی لیے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو اندازہ ہو کہ ملک کے ڈیفالٹ نہ ہونے کیا قیمت ادا کی گئی ہے۔ حد تو یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اسٹینڈ بائی ہے گویا کہ اس کی حیثیت عارضی ہے۔ آئی ایم ایف نے وقتی طور پر پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال سے بچانے کے لیے قسط جاری کی۔ سری لنکا سے آنے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ ڈیفالٹ سے انہیں کچھ خاص نقصان نہیں ہوا بلکہ اس بحران سے نکلنے کے بعد ان کی کرنسی مستحکم ہوگئی ہے کیونکہ ریسکیو کرنے کے لیے کئی ملک آگے آگئے تھے۔ جب سے شوگر مل مالکان نے ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کے نام سے نئی جماعت قائم کرکے حکومت کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ تو چینی کی قیمتوں میں چالیس سے پچاس روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چینی کی قیمتیں ڈیڑھ سو روپ فی کلو تک پہنچ گئی ہے اور یہ کارنامہ چند ہفتوں میں رونما ہوا گویا کہ ملک میں سیاست اور ریاست کی طاقت کو اپنی ذاتی کاروبار کی وسعت اور ترقی کے لیے استعمال کرنے کا رواج اور رجحان اب بھی کم نہیں ہوا۔ مجال ہے کسی نے معلوم کیا ہو کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوا۔ ڈیڑھ سال پہلے پولٹری کی صنعت والوں نے حکومت سنبھالی تو اس کے بعد سے مرغ کی قیمتیں راکٹ کی رفتار سے اوپر جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تو مرغی کا گوشت بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے۔ روسی تیل کی آمد کا سلسلہ جاری ہے مگر اس کا قومی معیشت کو کیا فائدہ ہوا؟ کچھ پتا نہیں۔ روسی تیل کوئی متبرک شے نہیں جس سے پاکستان میں خیر وبرکت مقصود تھا اس تیل کو خریدنے کا مقصد یہی تھا کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات میں کمی آئے اور مہنگائی کسی حد تک کنٹرول میں رہے مگر یہاں تو روسی تیل کا جہاز آنے کا مژدہ بھی سنایا جاتا ہے ساتھ ہی مہنگائی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں عرب تیل میں کیا کمی تھی یہی کہ وہ مہنگا ملتا تھا مگر اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ تیل مہنگا ملے یا سستا پاکستانیوں کے شب وروز بدلنے والے نہیں۔ تیل روس کا ہو یا برادر ملکوں کا بصیرت سے عاری اور ناقص منصوبہ بندی کا شکار قوموں کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔
قوموں کی تقدیر صرف بہترین منصوبہ بندی قانون کی حکمرانی اخلاص اور دیانت دارانہ طرز عمل ہی سے تبدیل ہوتی ہے۔ جہاں سیاست میں آنے کا مقصد ناجائز دولت کو بڑھانا یا اسے تحفظ دینا ہو تو وہاں افراد خوش حال اور ملک بدحال ہوتے ہیں اور پاکستان آج اسی اصول کی عملی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ حکمران طبقات کی دولت سات براعظموں تک پھیلی ہوئی ہے مگر ملک کا وقت دوسرے ملکوں کے قرضوں کی قسطوں پر گزر رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بات بھی تسلیم کی ہے کہ اگر چین نے فوری مدد نہ کی ہوتی تو پاکستان سری لنکا بن چکا ہوتا۔ چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں جو قرض دیا ہے یہ محض نمائشی ہے اس سے اسٹیٹ بینک اور زرمبادلہ کے ذخائر کا بھرم بچا ہوا ہے۔ اس قرض کو سونگھا تو جا سکتا ہے مگر چھونے کی اجازت نہیں۔ حالت یہ ہے کہ اسی کی دہائی سے کسی نہ کسی انداز میں شریک اقتدار جماعتیں اس کی ذمہ داری تین سال کی لولی لنگڑی حکومت والوں پر ڈال کر افسانوی ادب کی تاریخ کو ایک نیا موڑ دے رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی یہ مہنگائی عوام کے اوپر گرایا جانے والا ایٹم بم ہے۔ جس کے بعد عوام کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جا ہی ہے۔ ملک میں اس وقت ان سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے جو چند سال بھر قبل تک احتجاج کے طور پر مہنگائی مارچ کرکے دارالحکومت پر چڑھائی کیا کرتی تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب اُدھر ڈیزل پٹرول کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوا اِ دھر کارپوریٹ اور منظم ایجنڈوں کے لیے استعمال ہونے والا میڈیا مائیک لے کر مہنگائی کی دُہائیاں دینے مارکیٹوں میں پہنچ جاتا تھا۔ ہر روز شام چھے سے بارہ بجے تک ٹی وی کی اسکرین پر مہنگائی کی بنیاد پر حکومت کے لتے لیے جاتے تھے۔ پھر دنوں کا اُلٹ پھیر یوں ہوا کہ حکومت والے اپوزیشن میں مہنگائی مارچ کرنے والی اپوزیشن جماعتیں حکومت میں آگئیں۔ اس تبدیلی سے مہنگائی میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ خیال تھا کہ حکومتی تبدیلی کے بعد آئی ایم ایف کا رویہ بھی کچھ نرم پڑ جائے گا کیونکہ آئی ایم ایف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جن ملکوں کی پالیسیوں سے امریکا کو اختلاف ہوتا ہے یا جہاں کا سیاسی نظام یا حکمرانوں کا چہرہ انہیں پسند نہیں آتا تو وہ آئی ایم ایف کے ذریعے اس ملک کی کلائی مروڑتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ امریکا کو آنے والی تبدیلی تو پسند آئی اور اسے کے نتیجے میں ملک میں امریکی این جی اوز اور دوسرے امریکی فنڈڈ اداروں کو کام کرنے کی آزادی ملنا شروع ہوئی مگر اس کے بدلے آئی ایم ایف کا رویہ قطعی تبدیل نہیں ہوا۔ سوائے اس کے کہ بہت لیت ولعل کے ساتھ آئی ایم ایف نے قرض کی ایک اور قسط جاری کر دی اور اس کے ساتھ طریقہ ٔ استعمال کے نام پر اتنی کڑی شرائط پر مشتمل ہدایت نامہ بھی تھما دیا کہ اسی پر عمل درآمد سے اب مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی دُرگت بن رہی ہے۔ سب سے تلخ اور دل خراش حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دور کی مہنگائی میں منقا زیرِپا الیکٹرونک میڈیا اس بار مکمل طور پر غائب ہے۔ میڈیا عوام کی زبان اور آنکھ ہوتا ہے اور وہ عوام کی تکالیف کو حکمرانوں تک پہنچاتا ہے مگر یہاں میڈیا مکمل چپ سادھے ہوئے ہے۔ جس سے حکومت کو حالات کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہو رہا۔ اب تو مہنگائی مارچ کرنے والا بھی کوئی باقی نہیں رہا۔ اس گرد آلود ماحول میں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے اور کوئی شور ہنگامہ کرنے والا بھی نہیں گویا کہ عوام کو اکنامک ہٹ مین یعنی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے بھیڑئیے کے آگے ڈال دیا گیا ہے۔ عوام بے چارے اس ماحول میں کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟۔