جماعت اسلامی، اسٹیبلشمنٹ اور میئر کراچی کا انتخاب

1144

اہل کراچی کے بے مثال تعاون، حافظ نعیم الرحمن کی غیر معمولی قانونی جدوجہد اور نمبر گیم میں واضح اکثریت کے باوجود جماعت اسلامی کراچی میں اپنا میئر لانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکی؟۔ اس کی وجوہ کو وسیع تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ محض پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا کھیل نہ تھا جس نے کراچی کے پورے بلدیاتی الیکشن کے عمل کو اپنے فائول پلے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا اور اس کام میں الیکشن کمیشن سندھ اس کا معاون و مددگار بنا ہوا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ طاقتور لوگ بھی اس کھیل کا حصہ تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کے تعاون سے جماعت اسلامی کا میئر کامیاب ہو۔ ’’رجیم چینج‘‘ کے بعد پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کشیدہ تو ہوگئے تھے لیکن درپردہ مفاہمت کی باتیں بھی ہورہی تھیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان یہ سمجھتے تھے اور یہی حقیقت بھی ہے کہ اصل سیاسی قوت تو اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے چناچہ انہوں نے دبائو کے مختلف ہربے استعمال کرکے اسے مذاکرات کی میز پر لانا چاہا لیکن بات نہ بنی۔ اس دوران کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوگئے جس میں پی ٹی آئی نے چالیس نشستیں لے کر تیسری پوزیشن حاصل کرلی۔ اب میئر کراچی کا انتخاب باقی تھا اور کہا جارہا تھا کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے انتخابی اتحاد سے یہ معرکہ جماعت اسلامی کے حق میں سر ہوسکتا ہے۔ محترم حافظ نعیم الرحمن نے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت سے رابطہ کیا، بات چیت ہوئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، اس لیے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اس اتحاد کے حق میں نہیں تھی اور فواد چودھری یہ بیان دے چکے تھے کہ کراچی میں پی ٹی آئی جماعت اسلامی سے انتخابی اتحاد نہیں کرے گی۔ یہ صورت حال 9مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد اس وقت تبدیل ہوئی جب فارمیشن کمانڈروں کے اجلاس میں پی ٹی آئی کو حتمی طور پر کرش کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور پی ٹی آئی کے لیے کراچی میں جماعت اسلامی کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ چناں چہ جب زمان پارک لاہور میں حافظ نعیم الرحمن نے عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی پیش کش کی تو انہوں نے اسے خوشدلی سے قبول کرلیا اور یہ بات طے پاگئی کہ میئر کراچی کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے ارکان جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے۔ میڈیا میں بھی اس کا خوب چرچا ہوا اور محترم حافظ نعیم الرحمن نے بھی پورے اعتماد سے اعلان کیا کہ ہم میئر کا الیکشن جیت چکے ہیں بس 15 جون کو رسمی کارروائی باقی ہے لیکن یہ ’’رسمی‘‘ کارروائی اس لیے نہ ہوسکی کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو منظر ہی سے ہٹادیا گیا، یہ کام کن لوگوں نے کیا؟ سرفہرست تو سندھ حکومت ہی ہے جو ہرحال میں اپنا جیالا میئر لانا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک ایسے شخص کو میدان میں اُتارا تھا جو یونین کونسل کا انتخاب لڑنے سے بھی گریزاں تھا اور اسے سارے بلدیاتی عمل کو بلڈوز کرکے نامزد کیا گیا تھا لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ محض سندھ حکومت کی کارروائی نہ تھی، اس میں اسٹیبلشمنٹ بھی برابر کی شریک تھی جو اس وقت پی ٹی آئی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کراچی میں پی ٹی آئی اپنی موجوگی کا احساس دلائے اور میئر کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کرے۔

جماعت اسلامی نہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہے نہ سیاسی میدان میں اسے اپنا حریف سمجھتی ہے۔ جماعت اسلامی کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو وہی کام کرنا چاہیے جو آئین میں اسے سونپا گیا ہے۔ سیاست کرنا بہرکیف اس کا کام نہیں ہے لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ یہی کام کررہی ہے جو اس کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کام 9 مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد شروع ہوا ہے، یہ کام تو جنرل ایوب خان کے زمانے سے ہورہا ہے جو پاک فوج کے پہلے مسلمان سربراہ تھے۔ انہوں نے فوج کی کمان سنبھالتے ہی سیاست شروع کردی تھی۔ انہوں نے موقع ملتے ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور سیاستدانوں کو ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا۔ جماعت اسلامی ایوان اقتدار سے کوسوں دور تھی لیکن جنرل ایوب خان کو سب سے زیادہ خطرہ جماعت اسلامی ہی سے محسوس ہورہا تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی سے براہِ راست ملاقات کرکے انہیں سیاست سے لاتعلق کرنے کی کوشش کی، جب اس میں ناکامی ہوئی تو مولانا مودودی کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے پر ایک فوجی عدالت کے ذریعے سزائے موت سنوائی گئی لیکن عالم اسلام کے شدید ردعمل نے اس فیصلے پر عملدرآمد کو ناکام بنادیا۔ پھر آخری چارئہ کار کے طور پر 1964ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور مولانا مودودی سمیت جماعت کے تمام قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن اس زمانے میں عدالتوں میں جان تھی، عدالت نے اس پابندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جماعت اسلامی کی بحالی اور قائدین کی رہائی کا حکم دے دیا۔

جماعت اسلامی کے بارے میں یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کی بی ٹیم تھی حالاں کہ جنرل ضیا الحق نے جماعت اسلامی کو جتنا نقصان پہنچایا اس کے اثرات آج تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے کراچی میں جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم کو کھڑا کیا اور لسانی عصبیت کی سرپرستی کی۔ ایم کیو ایم نے زور پکڑنے کے بعد یوں تو پورے شہر کو خون میں نہلا دیا لیکن سب سے زیادہ خون اس نے جماعت اسلامی کا بہایا اور ایک بدقماش شخص نے تیس سال تک اس شہر کو یرغمال بنائے رکھا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ایم کیو ایم کی سرپرستی کی اور جماعت اسلامی کا راستہ روکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہو یا عالمی اسٹیبلشمنٹ دونوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ جماعت اسلامی کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیں گے کیوں کہ جماعت اسلامی کا ایجنڈا ان کے ایجنڈے کی بالکل ضد ہے۔ وہ پاکستان میں سیکولر نظام لانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت پیش رفت بھی کی ہے، جب کہ اس کے برعکس جماعت اسلامی اسلام کا نظام چاہتی ہے جس میں سود سے پاک معیشت اور عدل و انصاف پر مبنی گورننس کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اب تک اخوان المسلمون کی طرح جماعت اسلامی کو بھی ٹھکانے لگا چکی ہوتی لیکن جماعت اسلامی نے ابتدا ہی سے طے کر رکھا ہے کہ وہ آئین و قانون سے سرمو انحراف نہیں کرے گی یہ کسی خوف کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس میں وہ ملک کی اور اپنی سلامتی سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن طاقتوروں نے اس پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی انہیں منہ کی کھانی پڑی۔

اب ہم آخر میں پھر میئر کراچی کے انتخاب کا ذکر کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی قانونی جدوجہد قابل داد ہے کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری، وہ کراچی کے عوام کو بھی متحرک کیے ہوئے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ کی طرف بھی اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں جہاں انہوں نے اس انتخاب کے خلاف درخواست دائر کررکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خود عدالت کس حد تک انصاف کی پاسداری کرتی ہے۔