ہے کوئی عبرت پکڑ نے والا

622

سورہ انبیاء کی آیت نمبر 11 میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں۔ جن کو ہم نے پیس کررکھ دیا۔ اور ان کے بعد دوسری قوم کو اٹھایا‘‘، حدیث نبوی ہے: ’’ظلم کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں تو دے گا ہی بعض اوقات ظلم کرنے والے کو دنیا میں بھی سزا دیتا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا طبقہ اشرافیہ نہایت ظالم جابر اور بے حس ہے۔ ہمارے کتنے نوجوان دوران ڈکیتی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ کتنے لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ غربت، معاشی بد حالی اور تنگ دستی سے دل برداشتہ کتنے ہی لوگ خود کشی کر لیتے ہیں۔ معصوم ننھی پریوں کو زیادتی کے بعد اذیت ناک طریقے سے قتل کرکے کچرے پہ پھینک دیا جاتا ہے۔ کتنی معصوم لڑکیوں کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن قاتلوں کو صرف اس لیے سزائے موت نہیں دی جاتی کہ امریکا، یورپ، نام نہاد روشن خیال قوتیں، نام نہاد سیکولر قوتیں اور این جی اوز ناراض ہو جائیں گی۔ اگر صرف 1990 سے 2022 تک کا جائزہ لیا جائے۔ تو صرف بے گناہ قتل ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ میں ان ظالم حکمرانوں، بوسیدہ عدالتی نظام کے رکھوالوں، بد دیانت، بیورو کریٹس، سینہ تان کر رشوت لینے والے بے حیا سرکاری افسران، آئی ایم ایف کے ہاتھوں پوری قوم کو بیچنے والے بے غیرت سیاستدانوں اور پوری کرپٹ انتظامی مشنری سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا قبر کی پہلی ہولناک، دہشت ناک اور تمام عیاشیوں کو بھلا دینے والی رات کو فراموش کر چکے ہو؟ کیا تم اس حماقت میں مبتلا ہو کہ تمہیں قبر میں دنیا والا پروٹوکول دیا جائے گا۔ یہ مکاریاں یہ عیاشیاں یہ جعلسازیاں یہ تمغے یہ اعزازات یہ ریڈ کارپٹ استقبال یہ ترقیاں کیا وہاں بھی چلیں گی؟ کیا تم اس خبط میں مبتلا ہو کہ یہ بڑے بڑے حرام کی کمائی کے بنگلے، حویلیاں، محلات، گاڑیاں، یہ سونا چاندی، ہیرے جواہرات یہ نوٹوں کے ڈھیر یہ زمینیں یہ جاگیریں یہ سب وہاں بھی ساتھ ہوں گی؟
جی نہیں! وہاں صرف حسب عقیدہ اور حسب اعمال سلوک ہوگا۔
سنو اے طبقہ اشرافیہ! وہاں تنگ و تاریک دو گز زمین ہوگی۔ اس میں تمہار ا متعفن متکبر وجود ہوگا۔ کیڑے مکوڑے ہوں گے جو تمہاری حرام کی کمائی سے پلے جسم کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہوں گے کچھ ہی دنوں میں تمہارا وجود ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں سمیت عبرت کا نمونا ہوگا۔ جسے موسلادھار بارش قبر سے باہر نکال کر پھینک دے گی اور تمہاری یہ ہڈیاں بھی جنگلی کتے بلیّوں کی خوراک بنے گی۔ قبر میں ہولناک عذاب کی نہ ختم ہونے والی رات ہوگی۔ سانپ بچھّو تک ہی بات محدود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس عذاب کی وسیع اقسام موجود ہیں۔ جس طرح نعمتوں کی کوئی حد نہیں اسی طرح قسم قسم کی سزائوں کی بھی کوئی حد نہیں۔ افسوس صدا افسوس۔ سو چ کر ہی جھرجھری آ جاتی ہے۔
اے طبقہ اشر افیہ! یہ تم نے کیسا خسارے کا سودا کر لیا۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کبھی کبھی دنیا میں بھی عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔ تاکہ کوئی عبرت پکڑے۔ اب اندرا گاندھی، مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو کا حال پڑھیں۔ دنیا میں کوئی امر اتفاقی نہیں ہوتا۔ ہر امر کے پیچھے قدرت کی لاجواب حکمت ہوتی ہے۔ اپنے وقت کے طاقت ور ترین لوگوں نے محض اپنے مفادات کے خاطر لاکھوں بے گنا ہوں کو مشرقی پاکستان میں قتل کروا دیا۔ ایک پاکستان سے تقسیم ہند کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔ دوسرا پاکستان توڑ کر بنگلا دیش بنانا چاہتا تھا۔ تیسرا ہوسِ اقتدار میں پاگل ہو کر اِدھر ہم اْدھر تم کا نعرہ لگا چکا تھا۔ یہ تینوں کامیاب ضرور ہوئے۔ لیکن پھر قدرت کا ’’انتقام‘‘ شروع ہوا قابل غور بات یہ ہے کہ قدرت نے نہ صرف اِن سے عبرت ناک بدلہ لیا بلکہ ان کی اولادوں کو بھی نہ چھوڑا۔ اور وجہ یہ تھی کہ اِن 3 بڑے کرداروں نے اپنے قابل نفرت مفادات کی خاطر نہ صرف بیگناہ معصوم بہاریوں، جماعت اسلامی کے کارکنوں اور دیگر محب وطن عناصر قتل کروایا تھا۔ بلکہ ان کی خواتین اور بچوں تک کا قتل عام کروایا تھا۔ لہٰذا قدرت نے اِن 3 بڑے کرداروں کی اولادوں سے بھی بدلہ لیا۔ کس طرح پڑھیے
(۱) شیخ مجیب الرحمان کو 1975ء میں اِن کے خاندان سمیت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ (حسینہ واجد بچ گئی تھی کیونکہ وہ بیرون ملک تھی) اِن تمام کی لاشوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ کوئی اٹھانے والا نہیں تھا۔
(۲) اندرا گاندھی کو 1984ء میں اْن کے اپنے سکھ سیکورٹی گارڈ نے قتل کیا 16 گولیاں اْن کے سینے میں اتاریں گئیں۔ اس طرح یہ ظالم اور متعصب عورت اپنے انجام کو پہنچی۔ اس کا ایک بیٹا سنجے گاندھی ایک ہوائی حادثے میں ما را گیا۔ دوسرا بیٹا راجیو گاندھی ایک تامل عورت کے خودکش حملے میں مارا گیا۔
(۳) ذوالفقار علی بھٹو کو مسلسل 323 دن سخت اذیت میں رکھا گیا آخر پھانسی دی گئی۔ پھانسی دینے والے ہاتھ تارا مسیح کے تھے۔ حکم ضیاء الحق کا تھا۔ عدالتی کارروائی جعلی تھی۔ لیکن پیچھے قدرت کا ملہ تھی۔ شاہ نواز بھٹو کو فرانس میں زہر دیکر ہلاک کر دیا گیا۔ قاتل کون تھے۔ کبھی کچھ پتا نہ چل سکا۔ مرتضیٰ بھٹو کو 1996 میں کلفٹن کی سڑک پر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ جبکہ ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ بے نظیربھٹو ایک خودکش حملے میں ماری گئیں۔ ان کے دور میں بھی کراچی سمیت پورے سندھ میں بڑی تعد اد میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ یہ 2 دفعہ وزیر اعظم رہیں۔ لیکن انہوں نے جزا اور سزا کا نظام عدل قائم نہیں کیا۔ بلکہ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں قرآن پاک میں شرعی سزائوں کو نعوذ با اللہ وحشیانہ قرار دیا۔ لہٰذا قدرت نے اپنا فیصلہ سنایا۔ اور وہ بھی ایک وحشیانہ حملے ہی میں ماری گئیں۔ نصرت بھٹو اِن پے درپے صدمات سے ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ اور طویل علالت کے بعد وفات پائی۔ ہے کوئی عبرت پکڑ نے والا۔
ایرول شیرون۔ اب اس ملعون کا احوال پڑھیں۔ یہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم۔ اس نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کیا۔ صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں پر وحشیانہ حملے کیے۔ کثیر تعداد میں فلسطینی بوڑھے مرد عورتیں بچے شہید ہوئے۔ اس نے ایک نیا ڈاکٹرائن تخلیق کیا تھا۔ یہ خاص طور پر فلسطینی بچوں کو چن چن کر شہید کرتا تھا۔ اور پھر بھرپور خوشی کا اظہار کرتا تھا اس لیے اس کو چائلڈ ایٹر (بچوں کو کھانے والا) کہا جاتا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آیا 8 سال تک اللہ تعالیٰ نے اس کو موت اور زندگی کی کشمکش میں رکھا۔ مسلسل یہ کومے میں رہا۔ قارئین نزع کی کیفیت اگر چند منٹ کی بھی ہو تو جیسا کہ حدیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔ ناقابل بیان اذیت ناک ہوتی ہے۔ نزع کی تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ حدیث مبارکہ کے مطابق اگر انسان میں اٹھنے کی سکت ہو اور اس کے ہاتھ میں تلوار آجائے تو وہ اپنے قریب کھڑے ہوئے اپنے ہی گھر کے لوگوں پر تکلیف سے تلوار چلا دے۔ اس درندہ صفت خونخوار اور وحشی انسان ایرول شیرون کو اس شدید تکلیف میں اللہ تعالیٰ نے 8 سال تک رکھا۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی جہنم رسید ہوا اور اب ہمیشہ وہیں رہے گا۔ ہے کوئی عبرت پکڑ نے والا۔