اسرائیلی کابینہ میں اختلافات

623

دی ٹائمزآف اسرائیل (7مئی 2023ء) کی رپورتاژ کے مطابق ایک بائیس سالہ فلسطینی شہید مسلمان نوجوان کا جسد خاکی واپس کرنے پر ایک اسرائیلی وزیر احتجاجاً کابینہ سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔ اکیسویں صدی کی دہلیز پر چکا چوند روشنیوں کی دنیا میں انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کے نعروں اور اقوام متحدہ کے عین ناک کے نیچے اتنے سفاک، سنگ دل اور بے رحم لوگ کہ قتل کردینے کے بعد رہ جانے والے بقیہ جسم سے بھی اپنی آتش ظلم کو تسکین فراہم کرنے کے درپے ہیں، کیا یہ قیادت کیا انسان کہلانے کی حق دارہے؟؟ اب چوتھی نسل ہے کہ آئے روز کی قتل و غارت گری اور آتشیں اسلحے کے زور پر ایک قوم کو اس کے مسکن سے بے دخل کرکے ان کی نسل کشی کی کوشش کی جارہی ہے اور پھر بھی ان کے سینے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوپا رہی۔ قرآن مجید نے ان پر برملا تبصرہ کیا ہے کہ: ترجمہ: ’’آخرکار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے بھی کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے، اورکوئی اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے، (اے یہودیوں) اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں‘‘۔ (سورہ بقرہ: 74)
واقعاتی تفصیلات کے مطابق بائیس سالہ فلسطینی نوجوان ’’شریف حسن رابا‘‘ جس کو اسرائیلی سفاک فوجیوں نے مغربی کنارے میں اسے گولی مارکر قتل کردیا تھا اور اس کے جسد خاکی کو حکومت نے اپنی تحویل نے لیا ہوا تھا، اب بن یامین نیتن یاہو کی حکومت نے اس کی میت کو تدفین کے لیے ورثا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ بائیس سالہ نوجوان کی شہادت ایک تصور محض ہے کہ والدین اور رشتہ داروں پر کیا کیا بیتی ہوگی لیکن یہ ظالم یہودی جن کے قلوب پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں انہیں اپنے نوجوانوں کو دیکھ کر درد بھی نہیں آتاکہ جو جورو جفا تم کرچکے سوکرچکے اب کم از کم اس شہیدکا جسد خاکی تو ان کے اعزاو اقارب کے حوالے کرو۔ لیکن یہ اسرائیلی حکومت کی 2020ء میں ایک حکومتی فیصلے کے مطابق مستقل ریت ہے کہ شہدا کے اجسام کو اپنی ملکیت میں رکھ کر ان کے ورثا کی مجبوریوں کو استعمال (بلیک میل) کرتے ہیں، اور اگر اسرائیلی فوجی درندوں کی لاشیں فلسطینی بے گناہ مظلوم شہریوں کے قبضے میں چلی جائیں تو شہدا کے بدلے ان سے لین دین کرتے ہیں۔ یہ یہودی دنیا کی شاید واحد ریاست ہے جو لاشوں پر لین دین کرتی ہے اور اپنی زیر تسلط اقوام پر ظلم و جورو جبر کی نئی نئی روایات تراشتے ہیں۔ لیکن اس وزیر کی سفاکی ستم بالائے ستم ہے کہ جسدخاکی کی واپسی پر یہ وزیر کابینہ سے احتجاجی خروج کرگیا۔ یہ نوجوان ’’شریف حسن رابا‘‘ مشہور زمانہ فلسطینی مہاجرکیمپ ’’الفور‘‘ کا باسی تھا، یہ کیمپ مغربی کنارے کے شہر ’’ہیبرون‘‘ کے قرب میں واقع ہے، اور اس فلسطینی مسلمان نوجوان کا قصور یہ تھاکہ وہ 9 فروری 2023 کو ان جانے میں چھپے ہوئے اسرائیلی درندوں کے قریب سے گزرہا تھا کہ اپنی جان کے خوف میں مبتلا مسلح فوجیوں نے اس نہتے نوجوان کو اپنی طرف آنے میں خطرہ سمجھا اور بغیر کسی اطلاع کے اپنی بندوقوں کے دہانے اس پر کھول دیے، الامان والحفیظ۔ اسے وہاں قریب میں واقع ’’بیرشیبا‘‘ شہر کے ’’سروکا اسپتال‘‘ میں لے جایا گیا جہاں کے ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے کر حکومت کے حوالے کردیا۔ گزشتہ جمعۃُ المبارک 5 مئی 2023 کو اس شہید کا جسد خاکی ورثا کے سپرد کر دیا گیا اور فلسطینی انتظامیہ اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔ حوالگی کا یہ سارا مرحلہ اسرائیلی وزیردفاع ’’یوواگلانٹ‘‘ کی منظوری سے عمل پزیر ہوا۔ یہ وہاں روز کا دستور ہے کہ نوجونوں کو آتشیں اسلحے کے نشانے پر رکھا جاتا ہے یا پھر اٹھا کر غائب کردیا جاتا ہے اور سال ہا سال تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا یہاں تک کہ ان کے ورثا عالم بالا میں ان سے جاملتے ہیں، جب کہ وہ نوجوان خوش قسمت ہوتے ہیں جن کے جسدخاکی ان کے اقارب کو میسر آجاتے ہیں۔ یہ آپؐ کی اس قول مبارک کے عین مطابق ہے کہ قرب قیامت میں زمین ظلم سے بھرجائے گی۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیر محافظات ’’بین گیور‘‘ اور اس کی سیاسی جماعت کے دیگروزراء نے اعلان کیا ہے کہ اس بار کی ہفت روزہ کابینہ نشست میں احتجاجاً شرکت نہیں کریں گے اور اس کی دو وجوہات بتائیں ایک تو اسی نوجوان کے میت کی ورثا کو سپردگی اور دوسری ایک اردنی سیاست دان کی رہائی۔ انہوں نے اتوار 7 مئی 2023 کو اپنے بیانات اور تقاریر میں کہا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی رعایات کے بالکل بھی روادار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ان کے عوام نے انہیں اس لیے اعتماد نہیں دیا کہ وہ یہودیوں کی تاریخی روایات کو تبدیل کردیں اور وہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیدار اور مذہبی رواداری کے بین الاقوامی تھانیداروں اور ان کے مقامی گماشتوں کو مسلمان ملکوں اور اسلامی معاشروں کی آنکھ میں بال نظر بھی آجاتا ہے اور دنیا کو بھی شور مچا کردکھا دیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کی ریاست میں انہیں آنکھ کا شہتیر بھی نگاہوں سے اوجھل لگتا ہے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل بھی مذکورہ وزیرکی اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ساتھ کابینہ میں غزہ کے معاملے پر زبردست قسم کی جھڑپ ہوئی ہے اور موجودہ احتجاج کے ڈانڈے بھی اسی شدید اختلاف کے ساتھ ملتے ہیں۔ اس شدید جھڑپ کے جواب میں حکومتی بڑی سیاسی جماعت کے اراکین نے مذکورہ وزیر کو یہ دھمکی بھی دی اگر انہیں حکومتی منصوبوں سے اتفاق نہیں ہیں تو حزب اختلاف کی نشستوںمیں جا بیٹھیں اور حکومتی عہدوں سے مستعفی ہوجائیں۔
دراصل عالمی استعماری اداروں اور ذرائع ابلاغ کی عارضی چھڑی کے سہارے یہ ناجائز ریاست وقتی طور پر قائم ہے۔ بہت جلد اسلامی نشاۃ ثانیہ اور خلافت اسلامیہ کا یوم تاسیس نو ہی اس ریاست کے تابوت پرآخری کیل ثابت ہوگا، ان شااللہ تعالیٰ