زیست مشکل ہے

664

رمضان میں پھلوں کا بائیکاٹ تو ہو گیا، اب سنا ہے گوشت اور گیس کے بل کا پروگرام بن رہا ہے (لیکن گیس کا شاید اس لیے نہیں بن سکے گا کہ بائیکاٹ کی جانے والی چیز کے لیے اس کا موجود ہونا بہت ضروری ہوتا ہے) بہرکیف، ہر عمل کی طرح ان اقدامات کے بھی مثبت اور منفی پہلو اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ مثبت ایسے کہ بالآخر، کسی نہ کسی طرح، غلط یا صحیح، مطلوبہ ہدف یعنی اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ منفی پہلو میں اس عام آدمی کا Suffer کرنا شامل ہوگا کہ جس کی روٹی، روزی براہ راست بائیکاٹ کی جانے والی مصنوعات سے وابستہ ہے یعنی پھلوں اور سبزیوں کی صورت میں ایک ’’ٹھیلے والا‘‘ گوشت کے نتیجے میں ’’قصائی‘‘ اور روزمرہ اشیاء ضروریہ کی صورت میں ایک ’’دوکان والا‘‘۔ دوسرے لفظوں میں اس سے متاثر یا اس کو بھگتے گا وہ جو ان معاملات میں تقریباً بے قصور ہے۔
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اقدامات کا جو اصل ہدف (Target) ہے، وہ پورا ہو رہا ہے یا نہیں۔ مقصود ہدف جو مہنگائی بالخصوص خاص موقعوں پر ’’اچانک‘‘ پیدا ہوجانے والے اضافے کو کم کرنا ہے، اگر بہ حسن و خوبی حاصل ہو جاتا ہے تو بات الگ ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا خمیازہ (پہلے ہی سے پسے ہوئے) مزدور طبقے کو بھگتنا پڑے تو یہ انتہائی غلط ہوگا، اصل ذمے داران تو ہمیشہ ہی کی طرح ’’بچ نکلنے‘‘ میں کامیاب ہو جائیں گے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ایک مہذب معاشرے میں اس قسم کے اقدامات کس حد تک جائز ہیں؟ ہم یقینا ایک تہذیب یافتہ قوم ہیں، تو کیا ایسے عمل ہماری تہذیبی شناخت کو متاثر کر سکتے ہیں؟ ہماری اقدار ہمیں اخلاقیات، شفقت، تربیت، باہمی حسن سلوک اور احساس و اپنائیت کا درس دیتی ہیں، ان میں کہیں بھی کسی کی دل شکنی، تکلیف، مشکلات اور ایذا رسانی کا تصور نہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ لوگ آخر کریں تو کیا کریں، عام آدمی کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور نہ ہی انہیں ان کا کوئی حل نکلتا نظر آرہا ہے، ہر سو بے بسی، مایوسی اور حوصلہ شکنی کا راج ہے، دلبرداشتہ وجود اپنے تئیں کیے گئے فیصلوں کو جائز گردانتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آخر شروعات ہوئی کہاں سے ہے؟ بیتے عشروں کو یاد کیا جائے تو ثابت ہوگا کہ متوسط اور نچلا طبقہ ہمیشہ ہی سے مشکلات کا شکار رہا ہے، ایک عام آدمی کی زندگی تکالیف سے بھرپور ہے، تلخ زندگی کا آغاز بے بسی یا پھر خودکشی کی موت پر ختم ہوجاتا ہے، لوگ اپنے جائز حقوق سے تو سال ہا سال سے محروم تھے ہی، اب آٹے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں آٹا غریبوں کی تذلیل اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے پر تلا ہے، آٹے کی تلاش میں سرگرداں غریب عوام اپنے انسانی، معاشرتی اور بنیادی حقوق سے ناآشنا ہیں، اور نہ ہی انہیں کوئی ایسا Platform میسر ہے جہاں وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرسکیں۔
آج ایک غریب مزدور، تھکا ہارا جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو پرسکون نیند اس سے کوسوں دور ہوتی ہے، سوئے بھی تو کیسے، پنکھے، لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے چلتے نہیں، روکھی، سوکھی روٹی گیس نہ ہونے کی وجہ سے بنتی نہیں، ایسی صورت میں گھر کے باہر کچے پکے چبوتروں پر قمیص اُتارے، بھوکے پیٹ سونے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اب تو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے’’قدرتی ہوا‘‘ بھی چلنی کم ہو گئی ہے، کہنے والے اسے شامت اعمال کہہ دیتے ہیں، لیکن یہ اعمال انفرادی ہیں یا اجتماعی یا پھر کسی مخصوص شخصیت کے؟ یہ وضاحت نہیں کی جاتی، یہ وضاحت بھی نہیں کی جاتی کہ جب آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہی نہیں ہوئے تو پھر وصولیوں کی بجلی ان پر کیوں گرائی جا رہی ہے، بجلی سے یاد آیا کہ اگر یہ نہ ہوتو پھر تو زندگی کسی عذاب سے کم نہیں، کیونکہ بجلی کے بغیر پانی کا تصور محال ہے کیونکہ اب زمانہ Hand Pump کا نہیں برقی موٹرز کا ہے۔ جس طرح پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں اْسی طرح گیس کے بغیر کھانا بنانا! کھانے کے ذکر کے ساتھ، ساتھ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اچھی اور معیاری غذا کا حصول غریبوں کے لیے ناپید ہوچکا ہے، نقاہت اور خون کی کمی افسردہ چہروں پر عیاں ہے، غریب کے لیے پھل و فروٹ، میٹھے پکوان اور خشک میوہ جات محض ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے بالخصوص پیٹ سے متعلق بیماریوں کی بھرمار ہے، سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ بیروزگاری پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ اپنا کاروبار کرنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، جو غریبوں کے پاس نہیں، معاشرتی و سماجی ناانصافیاں و زیادتیاں عروج پر ہیں، اقربا پروری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ملاوٹ شدہ اشیا، صحت مند زندگی پر کاری ضرب لگا رہی ہیں، دالیں گلتی نہیں، سبزیاں کڑواہٹ کا شکار ہیں، دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ ملا ہے، جانچنا مشکل ہے، چوزے انتہائی پھرتی سے بڑے ہو رہے ہیں، گوشت زندہ حلال کا تھا یا مردہ حرام جانور کا، بہت سے مقامات پر جواب طلبی کا منتظر رہتا ہے، گھی، تیل، آٹا، مرچیں، صابن سب مشکوک ہیں مگر بک رہی ہیں۔ لیکن اب لگتا ہے ملاوٹ کا مسئلہ شاید ختم ہو جائے… کیسے…؟ ’’پلاسٹک والی چیزوں سے‘‘ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری!! اور پھر جب ان حالات میں صدائیں ’’سب اچھا ہے‘‘ ’’ہم ترقی کررہے ہیں‘‘ کی بلند ہوتی ہیں تو بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ کھوکلی مسکراہٹ!!
یقینا ہم ترقی بھی کریں گے اور سب اچھا بھی ہوجائے گا، بہت ضروری ہے کہ ایک عام، غریب، مفلس اور لاچار آدمی کی ترقی کو مدنظر رکھا جائے، رلتی، سسکتی زندگیوں کو فراموش کرکے خوشحالی کا تصور محض ایک فریب ہے۔