جامعہ پشاور ہڑتال کا ڈراپ سین

767

جامعہ پشاور میں اساتذہ،کلاس تھری، کلاس فور اور سینیٹری ورکرزکی نمائندہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی(جیک)کے زیر اہتمام ڈیڑھ ماہ سے جاری ہڑتال کا ڈراپ سین ہوگیا ہے۔ ہڑتال کے اس اچانک خاتمے پر سب سے زیادہ خوشی اور اطمینان کا اظہار طلبہ اور ان کے والدین کی جانب سے کیا جارہا ہے کیونکہ ایک دو دن قبل تک نہ تو اس احتجاج کے خاتمے کے آثار نظر آ رہے تھے اور نہ ہی فریقین اپنے اپنے موقف میں کسی لچک کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نظر آتے تھے۔ چند دن پہلے تک جیک کے ترجمان کاکہنا تھا کہ ہڑتال کرنے والے اساتذہ کسی بھی قیمت پر وائس چانسلر کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں وی سی کی کسی بات پر اعتبار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور یونیورسٹی کی تاریخ میں وہ پہلے وی سی ہوں گے جن کو یونیورسٹی ملازمین کے احتجاج کے نتیجے میں ہٹایا جائے گا لیکن اب فریقین کی جانب سے اچانک جس سیاسی بلوغت اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا گیا ہے یہ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ فریقین نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ ہوگئے بلکہ ایک دوسرے کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے ہڑتال کے خاتمے اور ایک دوسرے کوسننے اور احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کو بھی ماننے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ مفاہمت کی ان تمام کاوشوں میں بنیادی کریڈٹ صوبے کے گورنر حاجی غلام علی کو جاتا ہے جنہوں نے بطور چانسلر فریقین پر کوئی غیر ضروری دبائو یا غیر سیاسی انتظامی احکامات نافذ کرنے کے بجائے پختون روایات کے مطابق جرگے اور بطور ایک سیاسی قائد معاملات کو افہام وتفہیم اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا دور اندیشانہ راستہ نکالا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہڑتال کے خاتمے اور مطالبات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس گزشتہ روز گورنر ہائوس پشاور میں ہوا جس میں پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا) کے صدر ڈاکٹر عزیر کے علاوہ کمشنر پشاور، محکمہ اعلیٰ تعلیم اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر عزیر کے مطابق گورنر، چیف سیکرٹری اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کے حکام نے مطالبات پورے ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے جس پر ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ اساتذہ کے مطالبات کے حوالے سے سنڈیکیٹ کا اجلاس طلب کرے گی، یونیورسٹی کے سیکورٹی سپروائزر قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے گی، یونیورسٹی کے مسائل سنڈیکیٹ اور سینیٹ اجلاس میں حل ہوں گے، جب کہ گورنر نے یقین دہانی کرائی کہ وائس چانسلر کیخلاف انکوائری کے بعدکوئی ممکنہ کارروائی کی جائے گی۔
ڈیڑھ ماہ سے جاری اس ہڑتال کا خاتمہ نہ تو کسی کی جیت ہے اور نہ ہی یہ کسی کی شکست ہے بلکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان طلبہ کے قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت میں ہورہا تھا جن سے ان کو دی جانے والی تعلیم کے عوض بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں اور جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ صوبے کی بعض دیگر سرکاری جامعات کی طرح پشاور یونیورسٹی پر پچھلے کچھ عرصے سے نہ صرف 769 ملین کا قرضہ تھا بلکہ یہ یونیورسٹی اپنے اسٹاف کو تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں تھی لیکن پچھلے دو ڈھائی سال کے دوران موجودہ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کی بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کی بدولت یونیورسٹی کسی حد تک نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہوگئی ہے کسی حد تک خسارے سے نکلنے کی راہ پر بھی گامزن ہوچکی ہے نتیجتاً اس اچھی پرفارمنس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کو خصوصی گرانٹس بھی دی ہیں۔ ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں ہڑتال کا تصور ٹریڈ یونینز کی جانب سے آیا ہے جہاں آجر اور آجیر کے درمیان عدم اعتماد، سماجی تفریق، معاشی عدم تفاوت جیسے مسائل کے جنم لینے کے نتیجے میں مزدوروں اور کارکن طبقات کو بالادست سرمایہ دار طبقات کے خلاف بسا اوقات بہ امر مجبوری ہڑتال کا انتہائی قدم اٹھانا پڑتا ہے جب کہ اس کے برعکس ایک مایہ ناز اعلیٰ تعلیمی ادارے جہاں درس وتدریس اور علم کی روشنی بکھیرنے جیسے پیغمبرانہ فرائض انجام دیے جاتے ہیں اور جہاں کے اساتذہ کرام کو ان کی خدمات کے صلے میں اکیس اور بائیس کے سب سے بڑے سرکاری گریڈز سے نہ صرف نوازا جاتا ہے بلکہ انہیں ان گریڈز کی تمام ترمالی اور دیگر مراعات بھی دی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی جانب سے ہڑتال کے نام پر قوم کے نوجوانوں پر علم کے دروازے بند کرنے کی سوچ ناقابل فہم ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جامعات کے تمام ادارے اور فیصلہ ساز فورمز میں سب سے زیادہ نمائندگی بھی اساتذہ کرام ہی کی ہوتی ہے لیکن پھر بھی ان کی جانب سے ایک فرد (رئیس الجامعہ) کے خلاف محاذ آرائی اور تعلیمی نظام کے تعطل کو کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جامعات جن کا کام ہی ملک اور قوم کی راہنمائی اور انہیں بحرانوں سے نکالنے میں قیادت فراہم کرنا ہے اگر وہاں پر بھی فسطائی ہتھکنڈے آزمائے جائیں گے اور اپنے اندرونی مسائل کو بات چیت اور ڈائیلاگ کے بجائے احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے سلجھایا جائے گا تو اس کا نتیجہ افراتفری اور نوجوان نسل کو انتشار کے راستے پر ڈالنے کے سوا اور کچھ برآمد نہیں ہوگا لہٰذا اب جب فریقین گورنر کی مداخلت پر ہڑتال کے خاتمے اور ہڑتال کا باعث بننے والے مسائل کو حل کرنے پر متفق ہوگئے ہیں تو امید کی جانی چاہیے کہ معزز فریقین آئندہ کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس کا خمیازہ نوجوان نسل کو ان کے تعلیمی حرج کی صورت میں برداشت کرنا پڑے۔