فیصلے کا حیرت کدہ

753

یہ کوئی اچنبھا نہیں ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 8اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ مختلف حوالوں سے یہ فیصلہ نہیں ایک حیرت کدہ ہے جس میں معزز عدالت عدل و انصاف کی قوت کے ساتھ زور آزمائی کرتی محسوس ہوتی ہے لیکن واقفان حال کے لیے مذکورہ بینچ کا فیصلہ توقع کے عین مطابق ہے۔ عدالت عظمیٰ کا مذکورہ تین رکنی بنچ ہو اور فیصلہ عمران خان کے حق میں نہ آئے ایسا ممکن نہیں۔ فیصلے میں عدالتی آمریت کو اس ذہانت سے پس پردہ رکھا گیا ہے کہ معزز ججوں نے عمران خان کو بس تاحیات وزیراعظم بنانے کا براہ راست حکم نہیں دیا ہے ورنہ ہر راہ اسی سمت جاتی دکھائی دیتی ہے۔
اس حیرت کدے کا ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے تین جج صاحبان اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ٹیک اوور کرتے نظر آتے ہیں لیکن بے داغ مہارت سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہونے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں اب عدالت عظمیٰ کا یہ تین رکنی بینچ فیصلہ کرے گا کہ وفاقی حکومت کو کیا فیصلے کرنے ہیں، کب فنڈ مہیا کرنے ہیں، صوبائی انتخابات کے لیے کتنے ارب روپے جاری کرنے ہیں، قانون نافذ کرنے والے کن اداروں سے مدد لینی ہے۔ پنجاب کی نگراں حکومت، انسپکٹر جنرل پولیس اور چیف سیکرٹری کو انتخابات کے سلسلے میں کیا اقدامات اٹھانے ہیں۔ مختلف وزارتوں کو کس طرح کام کرنا ہے، الیکشن کے سلسلے میں کہاں کہاں سے پیسوں کا بندوبست کرنا ہے، الیکشن کے معاملات کس طرح طے کرنے ہیں، الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میںکاغذات نامزدگی 10اپریل کو جمع ہونے ہیں، حتمی فہرست 19اپریل کو اور انتخابی نشان 20اپریل کو جاری ہونے ہیں۔ اب یہ سب احکامات جاری کرنا الیکشن کمیشن کا کام نہیں تین جج صاحبان یہ ذمے داری ادا کر چکے ہیں۔ آئین نے تمام اداروں کے اختیارات کی تقسیم کار واضح کی ہے جس کے تحت کوئی ادارہ کسی اور ادارے میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ الیکشن کمیشن کا کام اسی کو کرنا ہے یہ کسی دوسرے ادارے کی ذمے داری نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کا کام پارلیمنٹ نہیں کرسکتی اور پارلیمنٹ کا کام عدالت عظمیٰ نہیں کرسکتی لیکن اس فیصلے کے بعد پاکستان کے تمام ادارے تین ججوں کو رپورٹ کرنے اور ان کی گائیڈ لائن لینے کے پا بند ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے انتظامی معاملات میں تو کوئی دوسرا ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا لیکن وہ تمام اداروں کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں۔
فیصلے کا دوسرا حیران کن پہلو یہ ہے کہ اگرچہ جج صاحبان الیکشن کے معاملے کو قومی سلامتی سے مشروط کرتے ہیں۔ 90دن میں انتخابات کو آئین پاکستان کا تقاضا قرار دیتے ہیں لیکن آئین پاکستان کا یہ تقاضا صرف پنجاب کے لیے ہے پختون خوا کے لیے نہیں۔ فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’یہ فیصلہ صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی حد تک ہے اور خیبر پختون خوا کے حوالے سے متعلقہ فورم پر رجوع کریں کیوں کہ خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر عدالت سے معاونت حاصل نہیں کی گئی‘‘۔ عدالت سے معاونت حاصل نہ کرنے کا معاملہ یہ ہے کہ پختون خوا گورنر کے وکیل نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا تھا۔ تو کیا ایک وکیل کے وکالت نامہ واپس لینے سے ایک صوبے کے عوام سے ان کا ووٹ کاسٹ کرنے کا حق واپس لیا جاسکتا ہے؟ کیا آئین اور قانون عدالت عظمیٰ کو صرف پنجاب میں تاریخ کے تعین کی اجازت دیتا ہے۔ پختون خوا آئین پاکستان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے جہاں الیکشن کی تاریخ سے عدالت عظمیٰ کے ججوں نے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔
تیسرا حیران کردینے والا پہلو یہ ہے کہ پختون خوا میں الیکشن کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے لیکن پنجاب میں انتخابات کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں جاری سماعت کو چیف جسٹس صاحب نے سوموٹو نوٹس لے کر ختم کردیا اور خود سماعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں۔ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحبان آئین پاکستان کی درست تفہیم سے قاصر اور اس کے مطابق فیصلہ دینے کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ کیا عدالت عظمیٰ کے تین ججوں کا پینل ہی آئین پاکستان کو سمجھتا ہے۔ قاعدہ یہی ہے کہ پہلے ہائی کورٹ فیصلہ کرتا ہے پھر عدالت عظمیٰ اس فیصلے کے خلاف اپیل سنتی ہے لیکن یہاں چیف جسٹس صاحب نے اس کا بھی انتظار نہیں کیا۔ ایک اور حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ جب برادر ججز تین چار کی اکثریت سے سوموٹو مسترد کر چکے تھے تو چیف جسٹس صاحب نے کوئی مفاہمتی راستہ نکالنے کے لیے فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا۔ ہمارے پاس یہ سمجھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ فل کورٹ سے کون سا آسمان گر پڑتا سوائے چیف جسٹس صاحب کی انا کے بت کی توڑ پھوڑ کے۔
چوتھا حیران کردینے والا پہلو یہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے التوا کا معاملہ پاکستان میں پہلی مرتبہ پیش نہیں آرہا ہے۔ ماضی میں الیکشن کمیشن نے ناگزیر وجوہ کی بنا پر کئی مرتبہ ضمنی اور عام انتخابات کے شیڈول میں ردو بدل کیا ہے؟ اس اقدام کو کبھی عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ میں چیلنج نہیںکیا گیا تو پھر اس مرتبہ التوا پر عدالت عظمیٰ کی طرف سے سردھڑ کی بازی کیوں لگائی جارہی ہے؟۔ 1993 میں جب ایم کیو ایم کے 14ارکان قومی اسمبلی اور 25ارکان صوبائی اسمبلی نے اجتماعی استعفے دیے تھے اس وقت چیف الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد میں ضمنی الیکشن 60دن کے بجائے چار مہینے میں کرائے تھے۔ 27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جنرل الیکشن 8جنوری 2008 کے بجائے 18فروری 2018 کو کرائے گئے تھے۔ فروری 2008 کے الیکشن ہی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی الیکشن 60دن کے بجائے پانچ ماہ کی تاخیر سے کروائے گئے تھے۔ چیف جسٹس بندیال صاحب کے شعور کی بیداری کا آخر یہ کون سا مرحلہ ہے کہ الیکشن 90دن کے اندر کروانے کے لیے وہ ہائی کورٹ سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب کے معاملات میں دخل دیتے کیوں نظر آرہے ہیں جبکہ آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے اور ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔ اگر یہ دخل اندازی کسی قاعدے قانون کے تحت ہے تو پھر پختون خوا کے لیے یہ قاعدہ قانون کیوں نہیں؟
سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے تینوں جج صاحبان اتنی شدت سے پنجاب میں الیکشن کی انسانیت نوازی کے پیچھے کیوں پڑے ہیں۔ جواب ہے اپنے پیارے ’’عمی‘‘ کے لیے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل عمران خان کی سیاسی فہم وفراست کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان تھی۔ یہ اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ طاقت کے کھیل میں جس کی قیمت عمران خان کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ عمران خان کے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بننے کے لیے پنجاب میں ان کا دوبارہ اقتدار میں آنا بہت ضروری ہی نہیں لازمی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے تینوں جج صاحبان کی پنجاب میں الیکشن کی بے چینیوںکی وجہ یہی ہے۔ وہ پنجاب دوبارہ عمران خان کی تحویل میں دینا چاہتے ہیں تاکہ وفاق میں ان کی حکومت یقینی ہوسکے۔ کیا یہ خواہش پوری ہوسکے گی۔ فی الحال تو اس کی صورت نظر نہیں آتی۔ اس پر ان شااللہ اگلے کالم میں بات ہوگی۔