پاکستان کا موجودہ منظر نامہ

662

آج ہر وہ شخص جو اپنے ملک کے سود و زیاں سے پوری دلچسپی رکھتا ہے اور حوادث روزگار اسے پوری طرح متاع درد سے محروم نہیں کر پائے جب اس کی نگاہ پاکستان کے منظر پر پڑتی ہے تو اسے ماضی تابناک، حال ہولناک، اور مستقبل تشویش ناک نظر آتا ہے اور اس تضاد نے خود دیکھنے والے کی شخصیت کو متضاد بنا رکھا ہے، اور پاکستان کا ہر ذمے دار، درد مند اور باصلاحیت شہری قوت فیصلہ سے محرومی کا مریض ہوتا جا رہا ہے۔ جب ایک پاکستانی، آزادی وطن اور تحریک پاکستان کو ماضی کے آئینے میں دیکھتا ہے تو وہ اسے روشن اور خوش کن نظر آتی ہے، اس کے بزرگ ہی تھے جنہوں نے انگریز کی دی ہوئی عزت کے مقابلے میں کالے پانی کی اذیت کو منتخب کیا تھا، جیلیں کاٹیں، چکی پیسی، تختۂ دار کو چوما، جلا وطنی قبول کی اور یوں آزادی کی راہ ہموار کر گئے، قیام پاکستان کی تحریک چلی تو ہمارے ہی بزرگ تھے جنہوں نے اپنا بنگالی، بلوچی، سندھی، پٹھان اور پنجابی تشخص ختم کر کے محض اسلامی امتیاز اور افتخار قائم کیا، سنی، شیعہ اور مقلد اور غیر مقلد کی تقسیم کو فراموش کر کے اسلام کی تعلیم کا سبق ازبر کیا، علاقائی اور صوبائی دانے چن کر ملی وحدت کی تسبیح میں پرو دیے تھے، زبان اور نسل کی لہروں اور موجوں کو اسلام کے سمندر میں شامل کر دیا تھا، تحریک پاکستان میں کوئی صوبہ گریزاں نہ تھا، کوئی زبان بیگانہ نہ تھی، کوئی نسل برگشتہ نہ تھی کوئی سنی مخالف نہ تھا کوئی شیعہ تنہا نہ تھا اور کوئی فرد کسی سے جدا نہ تھا، ایک نظریہ، ایک مطالبہ، ایک نعرہ اور ایک نقشہ سب کو مطلوب تھا اور سب کے لیے نقطہ اتحاد بن گیا بزرگوں کے اس اتحادِ فکر و عمل نے دنیا کے نقشے پر ایک بہت بڑا ملک قائم کر کے دکھا دیا، سیاسی پنڈت مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے، تجزیہ نگار منہ جھکا کر بیٹھ گئے، استعماری گماشتے غش کھا کر گر گئے اور جغادری ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ گئے، ماضی کے یہ چند اشارے ظاہر ہے کتنے یقین افروز اور جاذب نظر ہیں مگر اب کے جو ’’منظر پاکستان‘‘ سب کے سامنے ہے یعنی جو ہمارا حال ہے سو وہ ’’برا حال‘‘ ہے یہ تاثر کسی قنوطیت کا پیدا کردا نہیں بلکہ حقیقت کا عطا کردہ ہے جس سے چشم پوشی صرف وہ کر سکتے ہیں جن کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے جن کے خواب چکنا چور ہو گئے، جن کی امیدیں بکھر گئیں اور جن کے عقیدے متزلزل ہوگئے وہ بھلا کیسے اس منظر کو خوش کن کہہ سکتے ہیں؟
کسی فلسفیانہ تمہید کے بغیر عرض ہے کہ کیا ’’پاکستان‘‘ کا لفظ ہر مسلمان کو اس خوشگوار احساس سے معمور نہیں کر رہا تھا؟ کہ جونہی یہ لفظ اپنے معنی سے ہم آغوش ہو گا تو اس دھرتی پر انگریز کا نہیں خدا کا قانون ہو گا۔ سیاست جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد ہو جائے گی۔ معیشت کا قارونی انداز بدل جائے گا، معا شرت ہندوانہ اثر سے پاک ہو جائے گی۔ منبر و محراب عہد نبوت کی یاد تازہ کر دیں گے اور سر زمین پاکستان کا ہر باشندہ خدا کی بندگی کے سوا ہمہ قسمی بندگیوں سے آزاد ہو جائے گا لیکن پاکستان بننے کے تھوڑی مدت بعد دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے دیکھا اور سنا کہ ’’منظر پاکستان‘‘ کے سارے رنگ نہ صرف بدل گئے ہیں بلکہ پھیکے پڑ گئے ہیں، بزرگوں کے دکھائے ہوئے خواب آنکھ کھلنے پر ادھورے رہ گئے، اب ہر منظر خوفناک بنتا جا رہا ہے، انگریز کے عہد سیا ست میں کھگے، ٹوانے،دولتانے، کھوڑو، بھٹو، گردیزی، مری، بگٹی، میر، خان، سردار، اور چودھری نمایاں تھے اب بھی وہی چہرے ہیں پہلے سے زیادہ بھیانک، یہ پہلے بھی ضمیر فروش تھے اور اب بھی
ضمیر کے بیو پاری ہیں، نہ ان کا رنگ بدلا ہے نہ ڈھنگ۔ معیشت کا قارونی انداز نہ صرف یہ کہ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ مکروہ ہو گیا ہے لونڈے، لمڈے اور وحشی اور جا نگلی استحصال، جبر، مکر، اسمگلنگ کے باعث کروڑوں میں کھیلتے ہیں اور ذہین، ہنر مند، باصلاحیت اور شریف لوگ فٹ پا تھوں کو ناپتے اور پگ ڈنڈیوں کی خاک پھانکتے نظر آتے ہیں، معاشرت اسلامی کیا ہو ئی الٹا دم کٹی بن گئی ذات پات نے زندگی کے ہر شعبے کو زہریلے سانپ کی طرح ڈس لیا ہے، لسانی تقسیم نے رو شنیوں کے شہر کو درندوں کا بھٹ بنا دیا ہے جہاں قتل و غارت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، حقوق انسانیت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے، کچھ ذاتیں خود بخود بڑی بن گئیں ہیں اور باقی عوام ڈھور ڈنگر ہیں۔ منبر و محراب کا نقشہ بھی چنداں خوش کن نہیں کہاں منبر کی وہ عظمت کہ صدیقؓ و فاروق ؓ نے اس پر کھڑے ہو کر اخوت و بھائی چارے کے خطبے دیے اور کہاں یہ عالم کہ مسلمانوں کو فرقہ واریت کے تیروں سے چھلنی کرنے کے لیے کمین گاہ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں، محراب و منبر کی وہ شان کہ جہاں عثمان ؓ و علی ؓ کے سجدوں کی خوشبو رچی ہوتی تھی اور کہاں یہ کیفیت کہ پیشانی تو خدا کے آگے جھکی ہوتی ہے اور دل کسی صنم کی چوکھٹ پر نظر آتا ہے یہ خواب بس خواب ہی رہ گیا کہ پاکستان کا ہر باشندہ صرف خدا کا بندہ ہو گا مگر اب حکمران ہوں یا رعایا سب کی نگاہیں واشنگٹن پر اٹک جاتی ہیں اگر ہماری آنکھ کا سرمہ خاک مدینہ و نجف ہوتا تو شا یدنگاہوں کا قبلہ راست رہتا۔
المختصر ماضی میں یہ کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ بننے والے پاکستان میں معیار صرف پیسہ ہوگا، مدار صرف طاقت پر ہوگا، عزت صرف ایکڑوں کو ملے گی، سہولت صرف اوباشوں کو حاصل ہوگی، عہدہ صرف جاگیردار کو ملے گا، قرضہ صرف سرمایہ دار کو ملے گا، جس کا رقبہ زیادہ ہوگا رتبہ بھی اسی کا زیادہ ہوگا۔ جو جتنا زیادہ کمین ہوگا وہی ہمیشہ کرسی نشین ہوگا اگر ایسا کسی نے سوچا ہوتا تو کوئی اپنی سفید ڈاڑھی انگریز کی مٹھی میں نہ دیتا۔ کوئی اپنی جوانی نہ لٹاتا، کوئی ماں، بہن اور بیٹی اپنی ناموس دائو پر نہ لگاتی، کوئی کارکن اپنے قائد کی پالکی کندھوں پر نہ اٹھاتا کوئی بھوکے پیٹ گھر سے نکل کر اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ نعرے نہ لگاتا کہ ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔
ماضی میں یہ کِسے معلوم تھا کہ ان کی ہڈیوں پر سجے ہوئے تخت پر انگریز کی چاپلوس اور پشتینی وفادار لوگوں کی اولاد بیٹھے گی دولت صرف ناجائز طریقے سے مل سکے گی اور عزت صرف اپنی غیرت نیلام کر کے حاصل ہوسکے گی، وزارت اپنی دیانت بیچ کر نصیب ہو سکے گی، ہمارے نامور مجاہدوں، گمنام شہیدوں، پیکر وفا کارکنوں اور قابل فخر انقلابی کارکنوں کی روحیں بار بار یہ احتجاج کرتی ہیں کہ یہ گھر ہم اس لیے بنایا تھا اپنے گھر اجاڑ کر اور یہ تاریخ اس لیے مرتب کی تھی اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ جوڑ کر انگریزوں کے نمک خوار انہیں اور ملت کے ضمیر کو اپنے پنجے میں جکڑ لیں، بلکہ اس لیے یہ سب کچھ کیا تھا کہ اس کو اسلامی ریاست بنایا جائے، تشکیل پاکستان تو ہو گئی ابھی تکمیل پاکستان باقی ہے۔