بچتی اقدامات اور مالی کٹوتیوں کا ہدف صرف غریب

564

شاعر نے کہاتھا
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
عالمی سطح پر یہ بحث شدت اختیارکرتی جارہی ہے کہ اس پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔ اچھی حکمرانی یا گڈ گورننس عمومی بات نہیں بلکہ مربوط عوامل کا نتیجہ ہے جس کے لیے ایک درست حکمت عملی اور نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوشل ازم، سرمایہ داریت اور اس سے وابستہ جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مغرب میں فلاحی ریاست اور جمہوری آزادی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا عمل سمجھی جارہی ہے۔ تعلیم ہو یا صحت کا شعبہ حکومتیں جہاں بس چل رہا ہے عوام سے رعایتیں واپس لے رہی ہیں۔ بتدریج جمہوریت کے اصولوں سے انحراف ہی میں حکومتیں ریاست کی بقاء محسوس کررہی ہیں۔ ایک بحران سے نکلنے کے لیے دوسرے بحران کے حالات تیار کرتا سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے پالیسی سازوں کے پاس ہر بحران کا علاج سوائے اس کے کوئی اور نہیں کہ بحران کے نتائج کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے۔
عوام پر کٹو تیوں کی صورت میں جو بوجھ ڈالا جاتا ہے وہ اب دنیا بھر میں تو ایک طرف خود سرمایہ دارانہ نظام کی جنم بھومی یورپی ملکوں میں بھی ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کے خلاف اور اجرتوں میں اضافے کے لیے عوام برسراحتجاج ہیں۔ فرانس پنشن پر کٹوتیوں کی وجہ سے بدترین ہنگاموں کی زد میں ہے۔ فرانس میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں یکم ستمبر 2023 سے ہر سال بتدریج تین ماہ کا اضافہ کیا جائے گا۔ اسپین میں کئی برسوں سے شعبہ صحت میں بجٹ کٹوتیوں کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے بچت اور دفاعی مصارف میں اضافے کی خاطر ایک مذہبی تہوار ’’روز دعا‘‘ کو سرکاری تعطیلات سے کاٹنے کی اجازت دے دی ہے۔ مالیاتی بحرانوں کے تناظر میں یورپی ملکوں میں حکومتوں کی بچتی پالیسیاں اس براعظم کے کروڑوں شہریوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ 2025 تک یورپ میں مزید 25ملین شہری غربت کا شکار ہو جائیں گے یہ یورپی ملکوں میں ان بچتی اقدامات کا نتیجہ ہیں جو اقتصادی اصلاحات کے لیے اٹھائے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں بچتی اقدامات اور مالی کٹوتیوں کا فائدہ محض دس فی صد امیر باشندوں کو پہنچ رہا ہے۔ پاکستان میں اس صورتحال کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2021ء میں الجزیرہ ویب سائٹ پر یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق پاکستان کی امیر ترین کارپوریٹ، جاگیردار، سیاسی حکمران اور فوجی اشرافیہ کو سالانہ مجموعی طور پر 17.4 ارب ڈالر کی معاشی مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ خون اس وقت کھینچا جارہا ہے جب یہاں عوام اور محنت کشوں کی اکثریت بدترین معاشی بحران کا سامنا کررہی ہے جس کی شدت میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے بھی جو قرضے معیشت کو چلانے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں اس کے نتیجے میں بھی امیر مزید امیر ہوجاتے ہیں کیو نکہ ملک کی معیشت دراصل مراعات یافتہ حاکموں کی معیشت ہے جب کہ اس کے دیوالیہ پن کی قیمت اور قرضوں کی واپسی عوام کی جیب پر ڈاکا ڈال کر مہنگائی کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی عمومی شرح 45فی صد کے نزدیک ہے۔ آئی ایم ایف سے جو قسط حاصل کرنے کے لیے ہمیں دانتوں پسینہ آگیا ہے وہ مل گئی تو جولائی 2023 میں ہمیں آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام میں جانا پڑے گا۔ غریبوں کے لیے یہ پروگرام زندگی کا باعث بنیں یا موت کا پروانہ۔ امیروں پر اس کے معاشی اثرات کم ہی رونما ہوں گے۔ آج ہی روزنامہ جسارت کی سرخی ہے کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر حکومت نے شرح سود میں مزید اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف کے دبائو پر شرح سود پہلے ہی بیس فی صد تک پہنچ گئی ہے لیکن مطلوبہ نتائج ہیں کہ حاصل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
کئی صدیوں سے مغرب سیاسی نظام کا سرچشمہ ہے۔ سولہویں صدی کو ہم مغرب اور ایک لحاظ سے تاریخ انسانی کے نئے دور کا آغاز سمجھیں تو آج چار صدیاں گزرنے کے بعد اس نظام میں خستگی اور داخلی کمزوری کے آثار واضح ہیں۔ سیاسی نظام قابل حکومتیں فراہم نہیں کررہا ہے۔ نااہلی بجٹ خسارہ اور نفس پرستی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ہر جگہ جمہوریت عوامی توقعات میں اضافہ کررہی ہے جس سے پیدا مطالبات ریاست اور حکومت کو افراتفری کا شکار کررہے ہیں۔ حکومتیں دیر پا منصوبہ بندی کے بغیر بے قاعدگی اور محض الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔ بیش تر جمہوری ممالک میں سیاسی رہنما برسراقتدار آنے کے لیے عوامی مطالبات کو نظام پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے جائز اور ناجائز طریقے سے حکومت سے ناراض کرتے چلے جاتے ہیں جس سے حکومتیں جمود اور تعطل کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انسانوں کی آئندہ سرنوشت میں یہ انداز حکمرانی اور نظام دنیا بھر میں عوام سے ٹکرائو اور تصادم کی حالت میں ہے اور انسانیت پر ایک تباہ کن ضرب لگانے کے سوا کوئی کردار ادا کرتا نظر نہیں آرہا۔ اگلی دہائی کا سب سے بڑا چیلنج حکومتوں کو ٹھیک کرنا ہے جو کہ اس نظام میں ممکن نہیں۔
نامور امریکی ماہر اقتصادیات ڈیرون ایکمو گلو Daron Acemo Glu قرار دیتے ہیں: ’’جن قوموں کی قیادت اور اجتماعی حالت یہ ہو کہ ان میں تین برائیاں سرایت کرجائیں ان کی زوال پذیری یقینی ہے۔ اول: لالچ۔ دوم: خودغرضی اور تیسرے ماضی کو فراموش کرنے کی عادت‘‘۔ پاکستان میں اہل اقتدار کی کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کے قصے اب معمول کی بات ہیں۔ جن پر کوئی شرمسار نہیں۔ کسی برائی کے خلاف جدوجہد کا انحصار معاشرے کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے ہم کس بات کو رد اور کس بات کو قبول کررہے ہیں۔ عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ ادارے بدعنوانی کے رویوں کے ساتھ بد عنوانی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ جس شعبے میں بھی جس شخصیت کو دیکھیے نرگسیت کی مریض نظر آتی ہے۔ نرگسیت کے مریض کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا جرم دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ حکمرانی کا چیلنج ہو یا بہتر حکومت کی تشکیل انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ اسلام سے عدم توجہ عدم التفات انسان کے آج اور کل کے لیے نقصان دہ ہوگا دنیا کی اس حیرت افزا وسعت میں یہی انسان کی بے قرار روح کو ثبات بخش سکتا ہے وگرنہ انسانیت کی خیر نہیں۔