مشکات کی دوسری برسی

450

ہماری عزیز از جان بیٹی مشکات (مِشی) کو ہم سے بچھڑے دو سال ہوگئے ہیں۔ ان دوسال میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرا ہوگا جب وہ ہمیں یاد نہیں رہی ہوگی۔ اس بات پر پختہ یقین ہونے کے باوجود کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن ایک ایسی جوان سال بیٹی کہ ہم نے اس کی جدائی کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ ہم سے یوں اچانک ہمیشہ کے لیے روٹ کر چلی جائے گی۔ کہنے کو تو وہ ابھی بچی تھی لیکن اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے اس نو عمری ہی میں کچھ ایسی صفات پیدا کردی تھیں جو کم ہی لوگوں کو ودیعت کی جاتی ہیں۔ پختون کلچر میں بیٹیوں پر ہمیشہ بیٹوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور اس تفریق کا آغاز رحم مادر میں بچوں کے جنس کی نشاندہی اور ان کے تولد کے وقت ہی سے شروع ہو جاتا ہے ایسے میں جب ہم چھے بھائیوں کی شادیوںکے بعد ہمارے ہاں پہلی نرینہ اولاد یعنی میرا بڑا بیٹا سکندر پیدا ہوا تو اس کی پیدائش پر مجھ سے زیادہ میرے والدین، بھائی اور بھابھیاں خوش تھے حتیٰ کہ میری دادی جان جو ابھی حیات اور صحت مند تھیں وہ بھی اپنے چار بیٹوں میں سے بڑے بیٹے سے پہلے پوتے کی پیدائش پر پھولے نہیں سما رہی تھیں الغرض ہمارے خاندان کا ہر فرد ایک طویل عرصے کے بعد ہمارے گھر میں نرینہ اولاد کی پیدائش پر خوش تھا، اصل میں ہم چھے بھائیوں کی چونکہ کوئی بہن نہیں تھی اور شادیوں کے بعد میرے دونوں بڑے بھائیوں کو قدرت نے یکے بعد دیگرے تین تین بیٹیوں سے نوازا تھا اس لیے یہ بات اکثر مذاق میں کی جاتی تھی کہ ہماری بہن کی کمی کو اللہ تعالیٰ نے دو بھائیوں کو چھے بیٹیوں سے نواز کر پورا کر دیا ہے لہٰذا ایسے میں جب قدرت نے مجھے بیٹے سے نوازا تو خاندان بھر کے لیے یہ خوشی کا ایک بہترین موقع قرار پایا تھا البتہ جب دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے مشکات کی صورت میں بیٹی کی دولت سے نوازا تو بیٹی ہونے کے ناتے اس پر اکثر لوگ کچھ زیادہ خوش نہیں ہوئے تھے لہٰذا ایسے میں جب میں نے غیر ارادی طور پر اس کو تھوڑی اہمیت دی تو وہ جلد ہی میری پکی دوست بن گئی۔ جب کوئی اس کو یہ بتانے یا جتلانے کی کوشش کرتا کہ تم لڑکی ہو لہٰذا تمہیں لڑکوں سے موازنے یا برابری کی بات نہیں کرنی چاہیے تو غصے سے اس کا رنگ سرخ ہو جاتا اور وہ یہ بات ہر ممکن طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ لڑکوں سے کسی بھی لحاظ سے کم تر اور کمزور نہیں ہے۔ پچپن میں جب وہ ابھی پوری طرح چل نہیں سکتی تھی میں اسے ٹرائی سائیکل پر بٹھا کر رنگ روڈ کی سیر کرانے لے جاتا تھا واپسی پر جب یہ تھک کر سو جاتی تو اس کی گردن ایک طرف لڑھک جاتی تو میں اسے ایک ہاتھ سے گود میں اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے خالی سائیکل کو کھینچنے ہوئے گھر تک آتا بعض دفعہ یہ جاگ کر ضد کرتی کہ مجھے سائیکل سے کیوں اٹھایا ہے جب کہ کبھی کبھار لڑکوں کی طرح میرے کندھوں پر بیٹھنے کا مطالبہ کرتی جسے پورا کیے بغیر اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے گھر کے سامنے ایک پڑوسی کی چھوٹی سی دکان تھی وہ فالج کی وجہ سے پوری طرح بولنے سے قاصر تھے لیکن مشکات جو سال ڈیڑھ سال کی تھی گرتے پڑتے خود اس کی دکان پر پہنچ جاتی تھی ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ اس کے دکان کے باہر کھڑی ہے میں نے مشکات کو گود میں اٹھا کر اس دکاندارسے پوچھا کہ آپ اس کی بات کیسے سمجھ لیتے ہیں تو اس نے مذاق میں بتایا کہ بچے جنات کی زبان بولتے ہیں اور وہ اسے بآسانی سمجھ لیتا ہے جس پر میں نے انہیں کہا کہ اسے پیسوں کے بغیر کبھی کوئی چیز نہیں دینی جب بھی یہ کوئی چیز لینے آئے تو اسے یہ کہہ کر واپس بھیجنا کہ پیسے لیکر آئو یا اگر آپ اسے کوئی چیز دے بھی دیتے ہیں تو بعد میں مجھے بتایا کریں تا کہ میں ادائیگی کردیا کروں اس پر وہ ناراض ہو کر کہنے لگا کہ یہ تواتنی مبارک بچی ہے کہ جس دن یہ نہیں آتی اس دن میرا سودا ہی نہیں بکتا لیکن جس دن یہ صبح سویرے آ جائے سارا دن میری دکان پر گاہکوں کا رش لگا رہتا ہے اس کے اس جواب نے مجھے لاجواب کردیا۔
بچپن میں مشکات اپنے چھوٹے بھائیوں اور کزنز کی لیڈر بن کر دکان سے بعض غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء خرید کر آپس میں پارٹیاں لگاتے تھے جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے ان پر پانچ اشیاء پاپڑ، امچورہ، کروتھ، املی اور سلانٹی کی خریداری پر پابندی لگادی لیکن جب مجھے پتا چلا کہ یہ اب بھی چوری چھپے اس پابندی کی خلاف ورزی کررہے ہیں تو پھر مجھے انہیں کبھی سختی اور کبھی نرمی کے ساتھ ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی مدد سے ان مضر صحت اشیاء کے نام اور نقصانات ازبر کرانے پڑے جسے باقی بچے تو جلد ہی بھول گئے البتہ مشکات کو ساری عمر نہ صرف وہ پانچوں اشیاء یاد رہیں بلکہ بڑی ہونے کے بعد بھی اکثر مذاق میں انگلیاں گن گن کر ان اشیاء کے نام مجھے چھیڑنے کے لیے یاد دلاتے ہوئے کہتی تھی کہ ابو آپ نے ہمیں بچپن میں ان ’’پانچ نعمتوں‘‘ سے محروم رکھ کر ہمارے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔ مشکات تو آج ہم میں نہیں ہے لیکن اس کی ایک ایک بات رہ رہ کر ہمیں اس کی یاد دلاتی ہے۔