ابا جان! آپ اللہ کی حفاظت میں اور میرے دل میں ہیں

634

ترکی کے جنوبی شہر غازی عنتاب اور سرحد پار شام میں چھے فروری کی صبح 7.8شدت کے زلزلے میں خبروں کے مطابق 28ہزار سے زائد افراد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت میں چلے گئے ہیں۔ وہاںسے آمدہ خبریں سنیں تو سرکارؐ کا فرمان یاد آگیا۔ صہیبؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مومن کی بھی کیا ہی صورتحال ہے۔ اس کے ہر معاملے میں خیر ہے۔ یہ معاملہ مومن کے سوا کسی کے ساتھ نہیں۔ اگر مومن کو خوشی ملے تو وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس میں اس کے لیے خیر ہے۔ اگر مومن پر مصیبت آن پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس میں اس کے لیے خیر ہے‘‘۔ اسلام سے بڑھ کر خیر کیا ہوسکتا ہے کہ حواس معطل کردینے والے ایسے سانحے میں بھی انسان اپنے رب سے جڑا رہے۔ کھرمان کے شہر میں ایک شخص کو ملبے کے نیچے سے نکالا گیا تو نکلتے ہی سب سے پہلے اس نے وضو کے لیے پانی مانگا کہ کہیں اس کی نماز قضا نہ ہوجائے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ چار روز کے بعد ایک شامی بچی کو ملبے سے نکالا گیا تو زخموں سے چور نیم بے ہوشی کے عالم میں بھی اس کے ہونٹوں پر ایک ہی پریشانی تھی ’’الٰہی میرا کیا بنے گا کتنے دن ہوگئے نماز نہیں پڑھی‘‘ غازی عنتاب میں ایک خاتون کو ملبے تلے سے نکالا جارہا تھا تو اس ذی قدر خاتون نے باہر نکالے جانے سے پہلے سرڈھا نپنے کا مطالبہ کیا تاکہ نا محرم اس کو بے حجاب نہ دیکھ لیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ایک بزرگ ترک خاتون کے سارے بچے، پوتے پوتیاں، پورا خاندان زلزلے کی نذر ہوگیا۔ عمر کے اس آخری حصے میں مصائب سہنے کے لیے وہ تنہارہ گئی لیکن کوئی دکھ کوئی ملال نہیں، رونا پیٹنا نہیں۔ ترک صدر سے مخاطب ہوکر وہ کہہ رہی ہیں ’’میں نے کوئی چیز نہیں کھوئی اس لیے کہ ہم نبی کریمؐ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ ادلب میں معصوم بیٹا ملبے میں دبا ہوا ہے۔ جسم کا ایک حصہ ہوا میں لٹکا ہوا ہے۔ اس موقع پر باپ اگر بیٹے کو کوئی تلقین کررہا ہے تو وہ کلمہ پڑھنے کی ہے اور بچہ بھی کلمے کا ورد کررہا ہے۔ ترکی کے محمد حبیب تقریباً چھے دن ملبے تلے دبے رہے۔ ایسے میں ان کا کوئی دمساز اور رفیق تھا تو اللہ کا کلام، قرآن مجید۔ شام کی تسنیم الخباز نے تین دن پہلے ہی حفظ قرآن کی تکمیل کی تھی۔ آخری لمحوں میں انہیں کسی چیز کی حفاظت کی فکر تھی تو حفظ قرآن کی سند کی۔ ملبے تلے دبی تسنیم کی لاش کے ساتھ کچھ برآمد ہوا تو یہی حفظ قرآن کی سند۔ ترکی کے ایک فوجی جوان کو ایک سو چار گھنٹے بعد ملبے سے نکالا گیا تو وہ ہوش میں نہیں تھا۔ بے ہوشی کے عالم میں بھی اس کی زبان سے سورۃ البقرہ کے آخری رکوع کی تلاوت جاری تھی۔ چار دن بعد ملبے سے نکلنے والی بچی یہ اسلامی ادب نہیں بھولی کہ باہر نکلتے ہی اس کی پہلی صدا ’’السلام علیکم‘‘ تھی۔
حلب کے قریبی علاقے جندیرس کے رہائشی ناصر الو کاع کی داستان الم بڑی ہی جگر پاش ہے۔ ان کے بیش تر اہل خانہ زلزلے کی نذر ہوگئے۔ وہ گھر میں نہیں تھے اس لیے بچ گئے۔ صبح آئے تو گھر ملبے کا ڈھیر تھا جس کے تلے دبے ہوئے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ رضا کاروں کی مدد سے ناصر کسی نہ کسی طرح دو بچوں کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم بیوی سمیت باقی پانچ بچوں کو نہ نکال سکے۔ ناصر کو ان کی آوازیں آتی رہیں۔ آہستہ آہستہ جن میں کمزوری آتی گئی۔ بالآخر یہ آوازیں خاموش ہوگئیں۔ ناصر ملبے پر بیٹھا بے بسی سے انہیں آوازیں دیتا رہا۔ جب ملبہ ہٹایا گیا تو سب شہید ہوگئے تھے۔ ناصر کی بڑی بیٹی ھبۃ نے شہادت سے پہلے باپ کے نام ایک خط لکھا تھا جو اس کی گود میں پڑا تھا۔ خط میں جو کچھ تحریرتھا باپ سے بیٹی کی محبت کا وہ ایک ایسا استعارہ اور مثال ہے کہ دنیا کا کوئی ادب پارہ اثر آفرینی میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ خط میں لکھا تھا ’’الٰہی میں اپنا سب سے قیمتی اثاثہ (والد) تیرے پاس امانت رکھ رہی ہوں، میرے لیے اس کی حفاظت فرما۔ ابا جان! آپ اللہ کی حفاظت میں اور میرے دل میں ہیں‘‘ (الجزیرہ)
زلزلے کی اندوہناک ساعتوں میں بھی میرے رب کی قدرت نے ہر چیزکا احاطہ کیا ہوا تھا۔ موت اور زندگی کا بھی۔ وہ جسے چاہے موت دے اور جسے چاہے زندگی۔ اللہ کی قضا حتمی ہے۔ سات اعشاریہ آٹھ شدت کے زلزلے کی بھی مجال نہیں کہ زندگی سے سانسیں چھین لے۔ تکبیر کی صدائوں سے ضلع عفرین گونج اٹھا جب ایک نو مولود بچی کو ملبے سے نکالا گیا جس کی پیدائش زلزلے کے دوران ہوئی اور اس کی ماں ملبے تلے دب کر مرگئی۔ انطاکیہ کی پانچ سالہ ننھی پری ’’بازل ارنجر‘‘ 72گھنٹے بعد بھی ملبے سے اس طرح سلامت نکل آئی کہ وہ سونے کی طرح دمک رہی تھی۔ ایک سو اٹھائیس گھنٹے بعد بھی دو مہینے کا بچہ ملبے سے زندہ سلامت باہر نکال لیا گیا۔ اس عمر کا بچہ دو گھنٹے بھی دودھ نہ پیے تو بھوک سے نڈھال ہو جائے لیکن یہ بچہ ایسا تازہ دم تھا جیسے ابھی ابھی اس کا پیٹ بھرا ہو۔ اسی طرح ایک ماہ کا بچہ 120 گھنٹے ماں سے الگ بغیر دودھ اور کسی غذا کے زندہ سلامت ملبے سے نکل آیا۔ ترکی کا آٹھ سالہ بچہ 152 گھنٹے بعد بھی زندہ سلامت نکال لیا گیا۔
امت مسلمہ کو ایک متروک تصور باور کرایا جاتا ہے لیکن کوئی سانحہ ایسا نہیں گزرتا جب مسلمان یہ ثابت نہ کرتے ہوں کہ وہ ایک امت ہیں۔ ایک پاکستانی بزنس مین امریکا میں ترک سفارتخانے میں داخل ہوا اور خاموشی سے 30ملین ڈالرز (8ارب روپے سے زائد) دے کر چلا گیا۔ نہ نام بتایا اور نہ ہی کوئی شناخت ظاہر کی۔ امیر قطر دنیا کے پہلے حکمران ہیں جو ترکی پہنچے۔ پہنچنے سے پہلے وہ دس ہزار تیار مکانات اور 168ملین قطری ریال کی نقد امداد ترکی بھیج چکے تھے۔ برطانیہ سے محترم یوسف چمبرز اسلامک ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹرکے بانی، مسلم ایڈ، جمعہ میگزین اور اسلام چینل سے وابستہ اپنی ٹیم کے ساتھ انطاکیہ میں زلزلہ زدگان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ قطر میں ’’عون وسند‘‘ کے عنوان سے 16کروڑ ریال یعنی گیارہ ارب روپے اور کویت میں ’’الکویت۔ بجانبکم۔۔ کویت تمہارے ساتھ‘‘ دوکروڑ دینار یعنی 65ملین ڈالر (ساڑھے سترہ ارب روپے) جمع ہوچکے ہیں۔ ایک لاکھ 29ہزار 28 کویتیوں نے اس کار خیر میں حصہ لیا۔ عراقی مسلمان اگرچہ خود بھی مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں لیکن ترک بھائیوں کی امداد کے لیے انہوں نے جو کچھ بھیجا وہ بہت متاثر کن ہے۔ آزر بائیجان میں جگہ جگہ ترک بھائیوں کی امداد کے لیے سامان جمع کرنے کے لیے کیمپ لگے ہوئے ہیں ایک آذری شہری کا جذبہ کمال تھا جو دارالحکومت باکو سے اپنی پرانی سی کار میں سامان لاد کر ترکی کے لیے روانہ ہوگیا۔ قطر میں ایک مقامی شہری نے زلزلہ زدگان کے لیے ایک ملین ریال (7کروڑ 89لاکھ 94ہزار روپے) ہدیہ کیے۔ آخر میں اس ترک دکاندار کا ذکر جس نے اپنا پورا سپر اسٹور خالی کروایا کہ جائو سب کچھ اہل وطن زلزلہ متاثرین کے لیے لے جائو میرے لیے ایک سوئی بھی مت چھوڑو۔ اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ عجب ہے۔ مسلمان کیسی ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہوجائیں ان کے اندر اسلام موجود رہتا ہے۔ ترکی اور شام میں جہاں جہاں مسلمان اپنے بھائیوں اور بہنوں کو گری ہوئی عمارتوں کے ملبے تلے سے نکال رہے تھے وہ علاقے اللہ کی کبریائی سے گونج رہے تھے۔ مغرب دیکھ لے مسلمانوں میں دین اسلام کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں۔