جیل بھرو یا۔۔۔

592

عمران خان کچھ زیادہ ہی سادہ نہیں ہوگئے ہیں! جیل بھرنا کوئی سگریٹ بھرنے کی طرح ہے کہ ڈبی سے سگریٹ نکالا، ہتھیلی پہ تمباکو ڈالا، مصالحے کے ساتھ مَل کر واپس سگریٹ میں بھرا اور پھر دم ہی دم، رم ہی رم۔ ایک خیال خام کے مطابق جیل اور سگریٹ بھرنا عام ہوجائے تو دنیا میں آشتی ہی آشتی ہو امن ہی امن ہو۔ دنیا کے سارے بدمعاش، سیاست دان اور حکمران جیلوں میں بند سگریٹ کے سٹے لگانے میں محو ہوں تو سوچیے دنیا کیا ہی بے نظیر جگہ ہوسکتی ہے۔ جیل جانا اتنا آسان نہیں کہ آپ جیل کے دروازے پر جائیں اور للکاریں ’’اوئے دروازہ کھولو میں جیل بھرنے آگیا ہوں‘‘ جیل جانے سے پہلے کچھ کرنا پڑتا۔ بھرے ہوئے سگریٹ پولیس کا یہ کام بھی آسان کرسکتے ہیں۔ بھرے ہوئے سگریٹ اور بپھرے ہوئے سیاست دان کو کبھی اکیلے مزہ نہیں آتا۔ سکھ اکیلا ہنی مون پر جاسکتا ہے، میراثی بِن جُگت رہ سکتا ہے لیکن بھرا ہوا سگریٹ تنہا نہیں پیا جاسکتا۔ اس لیے عمران خان نے جیل بھرنے کی بات کی ہے۔ تنہا خود جیل جانے کی نہیں۔
سیاست دان اور چرس بھرے سگریٹ محض ہماری تُک بندی نہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق کارل مارکس نے اشتراکیت کا تصور چرسیوں سے ہی ادھار لیا تھا اور پھر واپس کرنا بھول گیا۔ جرمنی کے چرسی آج تک شکوہ کرتے ہیں کہ بھرے ہوئے سگریٹ ہمارے تھے لیکن سُٹّے سوویت یونین والوں نے لگائے۔ سوویت یونین کو ٹوٹنے اور مارکس کو فوت ہونے سے پہلے یہ ادھار واپس کردینا چاہیے تھا۔ اگر یہ ادھار واپس کردیا جاتا اور یہودی بھی منشیات کی لت میں لگ جاتے تو یہ دنیا اتنی خوفناک جگہ نہ ہوتی۔ اسرائیل کی کوئی کرکٹ ٹیم ہے اور نہ منشیات کا چلن ان کے ہاں عام ہے۔ وہ آپ کو کھیلوں میں زیادہ سرگرم نظر آئیں گے اور نہ منشیات کے اثرات ان کی نسلوں، خاندانوں اور معاشروں میں بکثرت پھیلے دکھائی دیں گے۔ دونوں ہی وجوہ سے ان کے ہاں کسی کرکٹ کپتان کے وزیراعظم بننے کے چانس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رہیں جیلیں تو وہ پہلے ہی فلسطینی بچوں، جوانوں اور شہریوں سے اس طرح بھردی گئی ہیں کہ مزید کی گنجائش ہی نہیں۔ اس لیے ان کا کوئی وزیراعظم جیل بھرو تحریک کا اعلان بھی نہیں کرسکتا۔
مارکس کی ذرہ سی غلطی نے سوویت یونین کی تعمیر میں خرابی کی وہ صورت مضمر کردی تھی کہ سوویت سلطنت کے ٹوٹنے میں منشیات کا ایک بڑا کردار تھا۔ افغانستان میں روسی فوجی منشیات حاصل کرنے کے لیے اپنا اسلحہ بیچتے نظر آتے تھے۔ منشیات کمیونزم ہی کی نہیں سرمایہ دارانہ نظام کی بھی فیورٹ ہے۔ 1979 کے بعد جب سی آئی اے کو افغانستان میں داخل ہونے کا موقع ملا تو انہوں نے خود منشیات کاشت کروانا شروع کردی تھی۔ امریکی قانون کے مطابق غیرقانونی سرگرمیوں کو سی آئی اے منشیات کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پوری کرتی ہے۔ یہ سی آئی اے کا بہت پرانا اور منظم طریقہ ہے۔ ویت نام میں ایک ائر لائن کمپنی بنائی گئی تھی جس کا مقصد منشیات کی اسمگلنگ کرنا تھا۔ اس سے حاصل شدہ رقم سے سی آئی اے کمیونزم کے خلاف گوریلا افواج اور ملیشیا کی مدد کرتی تھی۔ حکومتوں کے تختے الٹنا، بغاوتیں برپا کروانا اور فوجیں تیار کروانا، یہ سب کام چونکہ امریکی قوانین کے خلاف ہیں اس لیے منشیات کے پیسوں سے ہی یہ کارخیر انجام دیے جاتے ہیں۔ سی آئی اے ڈرگ مافیاز سے لین دین کرتی ہے تو وہ گروہ بھی انہیں مجبور کرتے ہیں اور منوں ٹنوں کے حساب سے کوکین، ہیروئن اور دوسری نشہ آور اشیا یورپ امریکا اور دنیا کے باقی حصوں میں پہنچائی جاتی ہیں جس کے لیے سی آئی اے اپنے ٹرانسپورٹ جہاز استعمال کرتی ہے۔ افغان جہاد کے دوران سی آئی اے نے بہت سے ذرائع سے منشیات حاصل کرکے آگے بیچی اور اس آمدن سے مختلف آپریشن شروع کیے۔ اس وقت پاکستان میں بڑے بڑے منشیات کے ڈیلر اسی وقت کی پیداوار ہیں۔ انہیں سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی۔ ایک وڈیو میں غالباً اسی زمانے میں عمران خان بھی قبائلی علاقے میں ایک دکان سے استفادہ کرتے نظر آئے تھے۔
جب سے عمران خان ایوان وزیراعظم سے دربدر ہوئے ہیں ایک گوتمی سی لاچار مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیلی رہتی ہے۔ خود کو اور اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے وہ ہر ہفتے ایک انٹر ٹینمنٹ پروگرام کا اعلان کرتے ہیں۔ بعض پروگرام اس طرح ہٹ ہوتے ہیں کہ کئی کئی ہفتے میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں۔ جیل بھرو تحریک بھی ایک ایسا ہی انٹر ٹینمنٹ پروگرام ہے۔ چونکہ وہ عالم اسلام ہی نہیں دنیا کے ایک عظیم لیڈر ہیں اس لیے ان کے کسی بھی پروگرام میں لاکھوں سے کم افراد کی شرکت نہیں ہوتی۔ اگر لاکھوں سے مراد چند سو یا ہزار دو ہزار افراد لیے جائیں تو۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عمران خان کی بات کے درست مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہے اس لیے بضد ہے کہ پہلے عمران خان خود جیل جائیں حالانکہ قوم سے اپنی تقریر دل پزیر میں عمران خان نے واضح طور پر کارکنوں سے جیل بھروانے کی بات کی ہے ’’کارکنوں سے کہتا ہوں جیل بھروتحریک کی تیاری کریں‘‘ جس طرح ’’ہر چرس نوش سگریٹ نوش ہوتا ہے لیکن ہر سگریٹ نوش چرس نوش نہیں ہوتا‘‘ اسی طرح عمران خان کی ہر بات کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی اس پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
منشیات کے استعمال کی ایک بات ہے کہ چاہے بیسیوں تیسیوں سال کوچہ سیاست میں رہ کر بھاڑ ہی جھونکا ہو لیکن ٹُن ہوتے ہی سیاست دان ایسے بلبل شیراز بنتے ہیں کہ آئیڈیاز کی بھرمار کردیتے ہیں۔ تاہم کارکنوں سے جیلیں بھروانے کا آئیڈیا ہمیں زیادہ پسند نہیں آیا۔ جیلوں میں جانے کے اصل حقدار عوام نہیں، ہمارے سیاست دان اور حکمران طبقہ ہے۔ جمہوریت کا سب سے بڑا فساد جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے وہ یہ سیاست دان اور حکمران ہیں جن میں سے کوئی امریکا کے ہاتھ بکا ہوا ہے اور کوئی بھارت کے۔ اس نظام نے پوری دنیاکو مکار، بد کردار اور بددیانت حکمران دیے ہیں۔ جس طرح یہودیوں کے نزدیک ان کے علاوہ پوری دنیا کے انسان، انسان ہی نہیں ہیں اور ان کا خون، جان اور مال ان کے لیے جائز ہے اسی طرح پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں اور سیاست دانوں کے نزدیک عوام کا خون، جان اور مال کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ عوام ان کے منصوبوں کی تکمیل کا محض ایندھن ہیں۔ سیدنا یوسفؑ نے مصر کے خزانے کے امور سنبھالتے ہوئے اپنی دو خوبیوں کا ذکر کیا تھا کہ ’’میں حفیظ بھی ہوں اور علیم بھی ہوں‘‘ یعنی میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور اس نظام کو اچھی طرح سمجھتا بھی ہوں۔ اس نظام میں کوشش کی جاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ملک کا سربراہ بنایا جائے، ایسے لوگوں کو حکومت دی جائے اس نظام کا حصہ بنا یا جائے جن میں یہ دونوں خوبیاں نہ ہوں۔ عمران خان اس کی ایک کلاسیک مثال ہیں۔