امداد اور قرض کی امیدیں

615

سب سے زیادہ زیرِبحث یہی موضوع ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ بحال ہوسکے گا یا نہیں۔ اگر بحال ہوگا تو آخر کب؟
امید کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے ساتھ ہی دوست ممالک سے امداد اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کے پروگرام بھی بحالی کی جانب گامزن ہوں گے لیکن یہ بات تو اب واضح ہے۔ حتیٰ کہ دوست ممالک بھی ہمیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اب پاکستان کو امداد اور قرضے کی امیدیں لگانے سے قبل اپنے اندرونی استحکام کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ اگر اندرونی استحکام کو ممکن نہیں بنایا جاتا تو پھر پاکستان کو مزید قرضے اور امداد دینے کا آخر فائدہ کیا ہے؟ آئی ایم ایف پروگرام اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان استحکام کے قیام کے لیے سنجیدگی سے ابتدائی اقدامات لے رہا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے اندرونی مسائل پو قابو پاسکتا ہے؟ اصلاحات لانے میں اس حکومت کی ہچکچاہٹ بھی گزشتہ حکومتوں جیسی ہی ہے۔ اصلاحات لانا سخت فیصلہ ہوگا اور اس کی بھاری قیمت بھی چکانی ہوگی۔ وقتی طور پر ان سے ملک کے متعدد شعبوں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ حکومتیں اپنے ووٹرز اور عوامی مقبولیت کھو جانے کے ڈر سے یہ قیمت ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔گزشتہ حکومتیں اصلاحات لانے سے کتراتی رہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی حکومت اصلاحات لانے کے لیے سیاسی قیمت ادا کر سکتی ہے؟ کیا حکومت اور حزبِ اختلاف اصلاحات کے لیے ایک صفحے پر آسکیں گے؟ یہ دونوں منظرنامے ہی ناممکن نظر آرہے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے درکار اقدامات کرے گی تاکہ ایک بار پھر وہ دوست ممالک سے امداد لے سکے، کچھ وقت کے لیے یہ تمام مسائل ٹل تو جائیں گے لیکن یہ پھر گلے کا طوق بن جائیں گے حقیقت یہ ہے کہ مسائل کا یہ دلدل مزید گہرا ہوتا جائے گا لیکن شاید حکومتِ وقت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کچھ وقت بعد یہ مسائل کسی دوسری حکومت کی ذمہ داری بن جائیں گے اور ہم اپنی زندگی یونہی بحران کی صورتحال میں گزارنے پر مجبور رہیں گے۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے ’ری امیجنگ پاکستان‘ کے حوالے سے مکالمہ شروع ہے۔ اس حوالے سے کچھ پروگرام اور مباحث ہوئے ہیں۔ لیکن چند سوالات پر زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ہمیں اپنے بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر کن اصلاحات کی ضرورت ہوگی؟ان اصلاحات پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا؟جو اتحادی تبدیلی کے عمل درآمد کے ذمہ دار ہوں گے، انہیں کیسے تشکیل دیا جائے گا اور پائیدار بنایا جائے گا؟ آخر کیا اصلاحات کی جائیں گی؟ سب سے پہلے ہمیں معیشت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کو یقینی بنانا ہوگا قانونی اصلاحات، جائیداد کے حقوق اور مارکیٹوں کے حوالے سے اصلاحات کو بھی شامل کرنا ہوگا ٹیکس کے نظام، خصوصی طور پر پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مقامی ٹیکسوں میں اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ علاوہ ازیں اخراجات کی ترجیحات میں بھی بہت سی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کی پالیسیوں میں بھی اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ اس ملک میں شاید ہی ایسا کوئی محکمہ ہو جہاں اصلاحات کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے ہمیں اس حوالے سے تفصیلی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ مباحث اور معاشرے میں ہونے والی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے شعبہ جاتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ اگر حکومت مستقبل میں گہری اصلاحات پرسنجیدہ ہوتی ہے تو ہمارے پاس تمام معلومات ہونی چاہئیں کہ کیسے دیگر محکموں میں اصلاحات پر کامیاب عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ چند تجاویز نظروں سے گزریں۔ ہمارا تعلیمی نظام نہایت کمزور ہے بہت سے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جبکہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں موجود طلبا کو معیاری تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔ تصور کریں کہ یہ اصلاحات ترتیب دے دی جاتی ہیں تو کیا ہماری بیوروکریسی میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ان اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے؟یہی وجہ ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ آسان عمل نہیں ہوگا۔ کسی بھی محکمے میں اصلاحات پر نظر ڈالیں گے تو معاملہ واضح ہوجائے گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ 4 دہائیوں سے اصلاحات کے حوالے سے اہم شعبے رہے ہیں۔ کیا آج ہمارا ایف بی آر ان دیگر محکموں سے زیادہ اہل اور موثر ہے جہاں اصلاحات کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی؟ کیا اب یہ ادارہ بدعنوانی کا مرتکب نہیں ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ ایف بی آر کی حالت دیگر محکموں سے مختلف نہیں ہے پاکستان کے لیے آئندہ چند سال ہرگز آسان نہیں ہوں گے امکان یہی ہے کہ ہم اصلاحات لانے میں ناکام رہیں گے اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں رہیں گے۔ لیکن اگر ہم اصلاحات لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہو بھی جاتے ہیں تب بھی ہمیں متعلقہ محکموں کے حوالے سے معلومات اور اصلاحات کے نفاذ کے لیے اہلیت کے فقدان کا سامنا کرنا ہوگا اور ہمارا امتحان جاری رہے گا۔